اُردُو‎
Perspective

4 جولائی 2025: ٹرمپ، اشرافیہ اور امریکی ردِ انقلاب

یہ 3 جولائی 2025 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'July 4, 2025: Trump, the oligarchy and the American counter-revolution' اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل 1 جولائی 2025 کو اوچوپی، فلوریڈا میں ڈیڈ-کولیئر ٹریننگ اینڈ ٹرانزیشن سہولت میں ایک نئے حراستی کیمپ کا دورہ کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/ایوان ووکی] [AP Photo/Evan Vucci]

4 جولائی 2025 کو اعلانِ آزادی پر دستخط کے 249 سال پورے ہو گئے جس میں کسی بھی حکومت کو 'تبدیل کرنے یا ختم کرنے' کے لوگوں کے حق پر زور دیا گیا جو انکی 'زندگی، آزادی اور خوشی کی تلاش' کی راہ کے لیے 'تباہ کن' بن جائے۔ 

یوم آزادی پریڈ، باربی کیو، پکنک اور آتش بازی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ درست ہے۔ تاہم امریکی انقلاب کی تقدیر اور ملک کی حالت کے بارے میں سنجیدہ سوچ کے لیے کچھ وقت نکالنا ضروری ہے۔ جیسے ہی ریاستہائے متحدہ اپنے وجود کے 250 ویں سال میں داخل ہو رہا ہے یہ ایک سیاسی، سماجی، فکری اور ثقافتی رد انقلاب کی زد میں ہے۔ وہ تمام عظیم جمہوری اصول جن کا جیفرسن کی لافانی دستاویز میں اعلان کیا گیا تھا اور جنہوں نے نہ صرف برطانوی بادشاہت کے خلاف جدوجہد کی بلکہ 1861-65 کے دوسرے امریکی انقلاب کو بھی متاثر کیا جس نے غلامی کا خاتمہ کیا یہ سب داو پر ہے اور شدید حملے کی زد میں ہیں۔

1863 میں گیٹسبرگ میں اپنی تقریر میں لنکن نے پوچھا کہ کیا ایک قوم اس اصول پر قائم ہے کہ تمام آدمی برابر بنائے گئے ہیں 'طویل عرصے تک رہ اور برداشت کر سکتے ہیں۔' ایک سو باسٹھ سال بعد وائٹ ہاؤس پر مسلط فاشسٹ گینگسٹر جو اشرافیہ کی نمائندگی کرتا ہے اپنا جواب دیتا ہے: کہ ’’نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا، نہیں ہونا چاہیے اور برداشت نہیں کریں گے۔‘‘

ٹرمپ حکومت صرف دائیں بازو کی حکومت کی ایک قسم نہیں ہے جو آئینی حکومت کے 'عام ' طریقہ کار میں ایک عارضی رکاوٹ ہے۔ یہ بورژوا جمہوریت کے ٹوٹنے کی نمائندگی کرتا ہے۔ جو 'معمول' پر واپس نہیں آئے گا۔ 'غیر معمولی' 'نیا معمول' ہے۔ حکمران طبقہ فاشزم اور آمریت کی طرف مائل ہو رہا ہے۔ 

غور کریں کہ صرف 4 جولائی سے ٹھیک پہلے کیا ہوا تھا۔ جمعرات کو امریکی ایوان نمائندگان نے ایک طبقاتی جنگ کا بل منظور کیا جو امریکی تاریخ میں دولت کی سب سے زیادہ اوپر کی طرف منتقلی میں شمار ہوتا ہے۔ جب ٹرمپ آج اس بل پر دستخط کریں گے، تو وہ میڈیک ایڈ، خوراک کی امداد اور لاکھوں لوگوں کو برقرار رکھنے والے دیگر سماجی پروگراموں میں سینکڑوں بلین ڈالر کی کٹوتیوں پر عمل درآمد کریں گے۔ ان وحشیانہ کٹوتیوں کا مقصد امیروں کے لیے کھربوں ڈالرز ٹیکس میں چھوٹ دینا ہے۔

وائٹ ہاؤس اور اس کے فاشسٹوں نے امریکہ کے ڈیموکریٹک سوشلسٹس کے ایک رکن ظہران ممدانی کو دھمکیوں اور اسکے خلاف شدید مذحمتی مہم شروع کی ہے جس نے انتہائی معمولی سماجی اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے ایک پلیٹ فارم پر نیویارک کے ڈیموکریٹک میئر کا پرائمری جیتا تھا۔

' میں اس کمیونسٹ پاگل کو نیو یارک کو تباہ کرنے کی بلکل اجازت نہیں دوں گا،' بدھ کے روز ٹرمپ نے شدید غصے سے کہا۔ 'یقین رکھیں میرے پاس تمام کارڈز موجود ہیں جسے میں بروقت استمعال کروں گا۔' دوسرے لفظوں میں جس کا مطلب یہ ہے کہ لاکھوں لوگ جنہوں نے ممدانی کو ووٹ دیا انکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ صرف صدر ہے جو طے کرے گا کہ کون جیتتا ہے۔ یہ ہنری کسنجر کے بدنام زمانہ تبصرے کی یاد دلاتا ہے - جس نے کہا کہ 'میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں کسی ملک کو اس کے لوگوں کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے کمیونسٹ بنتے کو کیوں دیکھنا چاہئے' - یہ تبصرہ امریکی حمایت یافتہ فوجی بغاوت سے پہلے کا تھا جو سلواڈور ایلینڈے کا تختہ الٹنے اور چلی میں دسیوں ہزار لوگوں کے قتل کا باعث بنی۔ 

ٹرمپ فلوریڈا ایورگلیڈز میں حراستی کیمپ کے افتتاح کا جشن منانے کے لیے فلوریڈا بھی گئے۔ دورے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے دھمکی دی کہ وہ کیمپ کو نہ صرف غیر دستاویزی تارکین وطن بلکہ امریکی شہریوں کے لیے بھی استعمال کریں گے۔ 'ان میں سے بہت سے ہمارے ملک میں پیدا ہوئے' ٹرمپ نے اعلان کیا۔ 'مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ان کو بھی یہاں سے نکال دینا چاہیے۔ آپ سچ جاننا چاہتے ہیں۔ تو شاید یہ اگلا قدم ہو گا۔'

اپنی دوسری انتظامیہ کے پانچ مہینوں میں ٹرمپ نے صدارتی آمریت قائم کرنے کی سازش کی نگرانی کی ہے- ایگزیکٹو آرڈرز کے سلسلے سے لے کر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی اور آئی سی ای گسٹاپو کے ذریعے تارکین وطن مزدوروں کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ کے ساتھ لاس اینجلس کی سڑکوں پر فوج کی تعیناتی کرتے ہوئے انہیں غیر قانونی قرار دے کر انکی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور غزہ میں نسل کشی کے مخالفین کی ملک بدری اور ان پر تشدد کا استعمال کیا ہے۔

رد انقلاب سماجی اور فکری زندگی تک پھیلا ہوا ہے۔ وبائی امراض سے تباہ حال صحت عامہ کو مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے، ویکسین کے مخالف اور سازشی تھیوریوں کو گھڑنے والوں کو اعلیٰ وفاقی عہدوں پر فائز کیا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز، فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے انکشاف کیا کہ ٹرمپ کے مقرر کردہ ڈاکٹر ونے پرساد جو کوویڈ-19 کے ضرر سے انکاری ہے نے ویکسین کی منظوریوں کے بارے میں اپنے ہی سائنسدانوں کی سفارشات کو نظرانداز کیا جو کہ سائنسی پروٹوکول کی بے مثال خلاف ورزی ہے۔

وہی جرم وہی طبقاتی جنگ جو داخلی طور پر چھیڑی جا رہی ہے وہی امریکی سامراج پوری دنیا میں لڑ رہا ہے۔ سموار کے روز اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو واشنگٹن جائیں گے جہاں وہ غزہ میں جاری نسل کشی کی نگرانی کریں گے۔ ہر روز امریکی ہتھیاروں اور امریکی پیسوں سے اسرائیلی فوج فلسطینی مردوں، عورتوں اور بچوں کو کھلے عام قتل کرتی ہے۔ نیتن یاہو کا دورہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ایران پر بمباری کے بعد ہوا ہے جو کہ بین الاقوامی اور ملکی قانون کی مکمل خلاف ورزی میں جنگ کا ایک عمل ہے۔

ان واقعات کی روشنی میں یہ دکھاوا برقرار رکھنا کہ ریاستہائے متحدہ میں قابلیت کے لحاظ سے کوئی نئی اور خطرناک چیز نہیں ہو رہی ایک فریب ہے۔ نیویارک ٹائمز کے کالم نگار جمیل بوئی نے کل شائع ہونے والے ایک کالم میں میڈیا اور ڈیموکریٹک پارٹی کے حلقوں میں پائی جانے والی خوش فہمی کے اس رویے کا خلاصہ یوں کیا جس کی سرخی تھی، 'اس کا سامنا کریں۔ ٹرمپ ایک عام ریپبلکن ہیں۔' 

بوئی لکھتے ہیں کہ شاید خاص طور پر لاپرواہی سے کام لیتے ہوئے ٹرمپ 'زیادہ تر معاملات میں ایک عام ریپبلکن صدر ہیں۔' اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ پچھلے 20 سالوں میں دو سابقہ ​​ریپبلکن صدارتیں 'تباہی میں ختم ہوئیں'۔ 'یہ سوچنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ٹرمپ کی دوسری مدت اس سے مستثنی ہوگی۔' 

اگر ٹرمپ صرف ایک 'عام ریپبلکن صدر' ہیں تو کسی بڑے رد عمل کی ضرورت نہیں ہے۔ یعنی کے اسکے خلاف کوئی شعوری اقدام نہ اٹھایا جائے۔اس طرح کے بیانات کا کام آبادی کو کلوروفارم سنگھنا ہے تاکہ وہ بے حس ہو جائیں یہ دھڑے جس چیز سے سب سے زیادہ خوفزدہ ہیں وہ ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے زیر اثر سماجی نظام کے خلاف ایک عوامی تحریک کا جنم دیکھ رہے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ اقتدار میں سیاسی انڈرورلڈ ہے — لیکن یہ سیاسی انڈرورلڈ امریکی حکمران طبقہ ہے۔ 3 جنوری 2017 کو شائع ہونے والے اپنے نئے سال کے بیان میں، ٹھیک آٹھ سال پہلے ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے ٹرمپ کے پہلے انتخاب کی اہمیت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:

کہ آنے والی ٹرمپ انتظامیہ اپنے مقاصد میں اپنے اہلکاروں کی طرح اشرافیہ کی بغاوت کا کردار رکھتی ہے۔ جب ایک برباد سماجی طبقہ اپنے انجام کے قریب پہنچتا ہے، تو تاریخ کے دھارے کے خلاف مزاحمت کرنے کی اسکی کوشش اکثر اس کو پلٹنے کی کوشش کی شکل اختیار کر لیتی ہے جسے وہ اپنی طاقت اور استحقاق کے دیرینہ کٹاؤ کے طور پر سمجھتا ہے۔ یہ حالات کو اس طرح بحال کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے کے وہ پہلے تھا(یا جیسا کے وہ تصور کرتا ہے) اس سے پہلے کہ سماجی اور معاشی تبدیلی کی ناقابل تسخیر قوتیں اس کی حکمرانی کی بنیادوں کو ختم کرنے لگیں، 

'امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے' کے ٹرمپ کے عہد کا مطلب ہے کہ عملی طور پر جو کچھ اب تک ترقی پسند سماجی اصلاحات کا بچا ہے ان کا مکمل خاتمہ، جو کئی دہائیوں کی عوامی جدوجہد کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے جس نے محنت کش طبقے کے لیے زندگی کے حالات کو بہتر بنایا…

یہ تجزیہ مکمل طور پر درست ثابت ہوا ہے۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں آمریت کے قیام کا عمل شروع ہوا لیکن وہ اسے مکمل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ اس اصطلاح کا اختتام 6 جنوری 2021 کی بغاوت کی کوشش پر ہوا جس کا مقصد انتخابات کو الٹ دینا تھا۔ 

ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانے سے کوسوں دور ڈیموکریٹک پارٹی نے اگلے چار سال ٹرمپ کی واپسی کے لیے سازگار حالات تیار کیے۔ ڈیموکریٹس کی آبادی کے وسیع پیمانے پر مفادات سے ٹکراؤ اور اعلیٰ متوسط ​​طبقے کے مراعات یافتہ طبقوں کی نسلی اور شناختی سیاست کے جنونی فروغ نے فاشسٹ سیلز مین ڈیماگوگ ٹرمپ کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے مخالف کے طور پر کھڑا ہونے دیا۔

ڈیموکریٹک پارٹی امریکی لبرل ازم کے خاتمے کا آخری اظہار ہے۔ یہ وال سٹریٹ اور ملٹری انٹیلی جنس اپریٹس کی ایک پارٹی ہے۔ یہ ٹرمپ حکومت کے ساتھ بزدلی، ملی بھگت اور مکمل تعاون کو یکجا کرتی ہے۔ صرف دو ہفتے قبل، سیاسی سجدے کے ایک عمل میں، ڈیموکریٹک قیادت نے ٹرمپ کے مواخذے کی قرارداد کو ختم کرنے کے لیے ووٹنگ میں ریپبلکنز کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔

تاہم ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف گہری اور بڑھتی ہوئی مزاحمت تیز ہو رہی ہے۔ اس سال پہلے ہی تارکین وطن، طلباء اور جمہوری حقوق پر ٹرمپ کے حملوں کے جواب میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ امریکی تاریخ کے سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہروں میں لاکھوں افراد نے گزشتہ ماہ ’’نو کنگز‘‘ کے بینر تلے مظاہروں میں شرکت کی۔

امریکی انقلاب میں مجسم جمہوری روایات حکمران طبقے میں نہیں بلکہ محنت کش طبقے میں ایک طاقتور صدا باز گشت برقرار رکھتی ہیں۔ آمریت، نسل کشی اور جنگ کے جھٹکوں کے درمیان، لاکھوں لوگ ریڈیکلیز ہو رہے ہیں۔ 

اہم سوال انقلابی قیادت کی تعمیر کا ہے۔ آمریت اور جنگ کی طرف بڑھنے والے حکمران طبقے کے سامنے ان تمام لوگوں کو مسترد کرنا ضروری ہے جو خوش فہمی کا مشورہ دیتے ہیں اور جو برنی سینڈرز، الیگزینڈریا اوکاسیو-کورٹیز اور مامدانی کی طرح سرمایہ داری کی بنیادوں کو چیلنج کیے بغیر 'ااشرافیہ' کے بارے میں بات کرتے ہیں۔

امریکہ اور دنیا بھر کے لاکھوں محنت کشوں کو یہ سمجھنا چاہیے اور وہ ضرور سمجھنے گے کہ اشرافیہ کے ردِ انقلاب کا مقابلہ محنت کش طبقے کے انقلاب سے ہی ہو سکتا ہے۔ 

امریکی انقلاب کی اس سالگرہ کے موقع پر، سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹی ایک نئے انقلاب کو برپا کرنے کے لیے ایک ماس سوشلسٹ تحریک کی تعمیر کا مطالبہ کرتی ہے- جو کہ اشرافیہ کی حکمرانی کو ختم کرے اور مساوات، جمہوریت اور سماجی ضرورت کی بنیاد پر معاشرے کو دوبارہ منظم کرے۔ عالمی سوشلزم کے پروگرام کے تحت محنت کش طبقے کی شعوری مداخلت کے ذریعے مجرمانہ ٹرمپ انتظامیہ کو گرایا جانا چاہیے۔

Loading