یہ 19 مئی 2025 کو انگریزی میں شائع ہونے 'Victory Day in Russia: The real historical lessons for the working class' والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
جمعہ 9 مئی کو پورے روس میں سوویت یونین اور اس کے اتحادیوں کی تیسری ریخ(جرمن نازی) پر فتح کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر فوجی پریڈ اور تہوار کی مختلف تقریبات منعقد ہوئیں۔ پریڈ کا انعقاد سخت سکیورٹی کے ماحول میں کیا گیا۔
پیوٹن نے زیلنسکی اور دیگر یوکرائنی سیاست دانوں کے بیانات کو سنجیدگی سے لیا جنہوں نے براہ راست کہا کہ وہ ماسکو یا دوسرے روسی شہروں پر حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ کریملن کی طرف سے 7 سے 11 مئی تک کے لیے تجویز کردہ جنگ بندی کا حقیقت میں مشاہدہ نہیں کیا گیا اس کے باوجود زیلنسکی کے بیانات کہ یوکرائنی فریق دشمنی میں ملوث نہیں ہوگا۔ 'یوم فتح' سے پہلے کے دنوں میں یوکرین نے بیلگوروڈ سمیت روسی علاقوں پر کئی ڈرون حملے کیے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سینٹ پیٹرزبرگ میں جنگ میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 10 لاکھ سے زائد افراد نے جشن پریڈ میں شرکت کی۔ ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والے جلوسوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی، ان میں سے اکثر نے اپنے دادا دادی کی تصویریں اٹھا رکھی تھیں جو جنگ میں لڑے اور مر گئے تھے۔ روس میں جیسا کہ سابق سوویت یونین کے دیگر تمام ممالک میں بشمول یوکرین تقریباً ہر خاندان نے فاشزم کے خلاف جنگ میں ایک یا ایک سے زیادہ رشتہ داروں کو کھو دیا ہے ایک اندازے کے مطابق 27 ملین سوویت جانیں گئیں یعنی کہ جنگ سے پہلے چھ سوویت شہریوں میں سے ایک زندہ تھا۔ مزید لاکھوں افراد نے فرنٹ لائن سپاہیوں یا پیچھے سے کام کرنے والے مزدوروں کے طور پر خدمات انجام دیں محاذ کو کھانے کی ترسیل اور ہٹلر پر فتح کو یقینی بنانے کے لیے خود کو انتہائی تھکن اور فاقہ کشی سے دوچار رکھنا پڑا۔
اگرچہ جنگ کے بارے میں ایک گہرا عوامی شعور موجود ہے لیکن اس کی طبقاتی اور تاریخی اہمیت کو کئی دہائیوں پر محیط سٹالنزم کے نتیجے میں اسے بہت کم تسلیم یا سمجھا گیا ہے۔ پیوٹن حکومت جنگ کو بنیادی طور پر ایک قومی ادارے کے طور پر پیش کرنے کے لیے سٹالنسٹ تاریخی جعل سازی اور قوم پرستی کی میراث کو گھسیٹتی ہے۔ اس بنیاد پر وہ غلط طور پر یوکرین پر اپنے رجعتی حملے کو سوویت یونین کے دفاع میں سوویت عوام کی جدوجہد کے تسلسل کے طور پر پیش کرتا ہے۔
پیوٹن کی فریب پر مبنی جنگ کی قوم پرستانہ تشریح
اس سال کی پریڈ سرمایہ دار روس کی تاریخ کی 31ویں پریڈ تھی۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد صدر بورس یلسن کے دور میں فوجی پریڈ اور تہوار کی تقریبات نے ایک منظم طریقے سے قوم پرستی کے کردار کے ذریعے تاریخ کو مسخ کیا جس کا مقصد روسی مزدوروں کو ایک تاریخی مخالف امتزاج سے زہر آلود کرنا تھا۔ اس جھوٹے بیانیے کے مطابق تاریخ کی سب سے وحشیانہ سرمایہ دارانہ حکومت کے خلاف سوویت عوام نے اکتوبر انقلاب کی کامیابیوں کے دفاع کے لیے نہیں لڑا بلکہ اسکے برعکس انھوں نے 'مادر وطن'، 'فادر لینڈ' اور 'قومی مفادات' کے لیے جدوجہد کی جو قیاس کے مطابق ایک ہزار سال سے موجود ہیں۔
پیوٹن کے نزدیک ہٹلر کے خلاف جدوجہد میں سوویت عوام کا تاریخی کارنامہ جسے عالمی طبقاتی اہمیت حاصل تھی اپنی قومی ثقافت کے نام پر 1000 سال پرانے روسی عوام کے کارناموں کی ایک محض کڑی تھی۔ روسی قوم پرستی کا افسانہ پیوٹن حکومت کی سوویت یونین اور جدید سرمایہ دارانہ روس کی سماجی بنیادوں کے درمیان بنیادی فرق کو دھندلا دینے کی کوششوں میں اہم کردار بن گیا ہے۔ یہ افسانہ سراسر تاریخی جعل سازی، مذہبی تصوف اور بے ہودہ غلطیوں کے مرکب پر مبنی ہے۔
ماسکو پریڈ میں اپنے خطاب میں پیوٹن نے کہا:
ہمارے باپ، دادا اور پردادا نے وطن کو بچایا۔ اور انہوں نے ہمیں مادر وطن کا دفاع کرنے، اتحاد، اپنے قومی مفادات، ہماری ہزار سالہ تاریخ، ثقافت اور روایتی اقدار کا مضبوطی سے دفاع کرنے کی وصیت کی۔ ہر وہ چیز جو ہمیں عزیز ہے، ہر وہ چیز جو ہمارے لیے مقدس ہے۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم سرخ فوج کے سپاہیوں اور کمانڈروں کے اعزاز کا دفاع کریں، مختلف قومیتوں کے نمائندوں کا عظیم کارنامہ جو روسی فوجیوں کی حیثیت سے عالمی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
سوویت فوجیوں کو 'روسی سپاہیوں' میں تبدیل کر کے پیوٹن نے مشورہ دیا کہ ہٹلر کے خلاف جنگ محض قومی دفاع کا معاملہ تھا۔ در حقیقت سرخ فوج کو اکتوبر انقلاب کے بعد لیون ٹراٹسکی کی قیادت میں سابق روسی سلطنت کی بورژوازی اور سامراجی مداخلت سے لڑنے کے لیے بنایا گیا تھا اور اس کا رخ اصل میں محنت کش طبقے کے عالمی انقلاب کی طرف تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں سرخ فوج صرف 'روسیوں' پر مشتمل نہیں تھی بلکہ سوویت فوجیوں پر مشتمل تھی جن میں یوکرین، قفقاز، وسطی ایشیا اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے لاکھوں افراد شامل تھے جو سامراجی بربریت کے خلاف شانہ بشانہ لڑے تھے۔
مزید برآں پیوٹن کے افسانوں کے برعکس روسی تاریخ کے 1,000 سال جبک یہ صرف 500 سال پر محیط ہے، جس کا آغاز پہلی مرکزی روسی ریاست ایوان سے ہوتا ہے۔ اس کے بعد”روس“ کا لفظ 111ریاست ایوان کے نام کے مترادف کے طور پر بڑے پیمانے پر استعمال میں آیا۔ تاہم یہ نام 1721 میں روس کے پہلے شہنشاہ پیٹر اول کے دور ہی میں سرکاری طور پر قائم کیا گیا تھا۔ اس تاریخ کے پہلے 500 سالوں کو اس لحاظ سے روسی نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا تعلق مشرقی سلاوی قبائل سے تھا۔ روسیوں یا ان کے اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اس وقت روس کا قومی تصور محض ناممکن تھا۔ سب سے بڑھ کر لوگ اپنے قبیلے، شہزادے یا اپنے شہر سے پہچانے جاتے تھے۔ شہزادوں کا بکھر جانا اور ان کے درمیان مسلسل جنگیں اس زمانے میں معاشرے کی عصبیت کا سب سے نمایاں مظہر تھے۔
روسی قوم پرستی کے فروغ میں پیوٹن صرف معمولی رد و بدل کے ساتھ ہٹلر کے خلاف جنگ کے دوران اسٹالن کے پروپیگنڈے کو دہرا رہے ہیں۔ یہ اسٹالن کے دور میں ہی تھا کہ نازی سوویت جنگ کو 'عظیم محب وطن جنگ' کہا جاتا تھا۔ اس اصطلاح کے ساتھ اکتوبر انقلاب کی فتوحات کے دفاع کے لیے بڑی جنگ کو اس طرح 1812 میں نپولین کے خلاف زار کی روسی سلطنت کی 'محب الوطنی کی جنگ' کے تسلسل کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس اصطلاح کا بنیادی مقصد سوویت جنگ کے طبقاتی اور عالمی کردار کو دھندلا دینا اور اسے خصوصی طور پر قومی معاملہ میں تبدیل کرنا تھا۔ درحقیقت دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی سوویت بیوروکریسی کا قوم پرستانہ پروپیگنڈہ اپنے عارضی عروج پر پہنچ گیا تھا: کئی سالوں سے سٹالن پرانے روسی زاروں کی بحالی، عظیم روسی شاونزم کو زندہ کرنے اور خانہ جنگی کی تاریخ کو یادداشت سے مٹانے کی ہر طرح سے کوشش کر رہا تھا جو سامراج اور بورژوازی کے خلاف طبقاتی جنگ کی بنیاد پر لڑی گی۔
یہ پروپیگنڈہ سٹالن کے 'ایک ملک میں سوشلزم کی تعمیر' کے پروگرام کی بنیاد پر انقلاب کے ساتھ قوم پرستانہ غداری کا تسلسل تھا۔ اس کا مقصد عوام کے شعور میں ان انقلابی جذبوں کو کمزور کرنا تھا جو سوویت یونین پر نازیوں کے حملے سے دوبارہ ابھرے تھے اور اس سے نہ صرف فاشسٹ حملہ آوروں بلکہ سوویت بیوروکریسی کو بھی خطرہ تھا جس نے محنت کش طبقے سے سیاسی طاقت کو پرتشدد طریقے سے چھین لیا تھا۔
درحقیقت سٹالنسٹ بیوروکریسی نے فاشزم کے عروج اور اس کے ساتھ ہی سوویت عوام پر جو تباہی مسلط کی گی اس میں انکی سیاسی ذمہ داری کا کافی حصہ رہا ہے۔ جنگ سے صرف تین سال پہلے سوویت یونین نے پرانے بالشویکوں پر سٹالن کی حکومت کے تمام مخالفین کے خلاف ریاستی دہشت گردی کی ایک انتہا دیکھی۔ اجتماعی قتل عام کی اس مہم میں اکتوبر انقلاب کے تمام اہم رہنماؤں اور ہزاروں ٹراٹسکیوں کو قتل کر دیا گیا جن میں اگست 1940 میں لیون ٹراٹسکی بھی شامل تھے۔ دہشت گردی میں سرخ فوج کا بڑے پیمانے پر خاتمہ شامل تھا جس نے اسے کمزور کر دیا اور ہٹلر کو جون 1941 میں سوویت یونین پر حملہ کرنے کی ترغیب دی جو سمجھا رہا تھا کہ سٹالن نے منجھے ہوئے بالشویکوں کے تشدد کے ساتھ خاتمے اور انکے سرخ فوج سے اخراج کے سبب سوویت یونین کو پہلے ہی وار میں سنگین دھچکے اور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خوش قسمتی سے ہٹلر کی یہ امیدیں پوری طرح انجام تک نہیں پہنچی۔ تاہم سوویت یونین تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔ جنگ کے پہلے مہینے ایک بہت بڑی ناکامی تھی اور اس نے سٹالنسٹ گروہ کے دیوالیہ ہونے کی تصدیق کی، جو جنگ کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں تھا۔ صرف 1941 میں جنگی نقصانات میں 30 لاکھ فوجی اور شہریوں کی اموات تھیں جو جنگ کے کسی بھی دوسرے نصف سال سے زیادہ تھی۔ درحقیقت سوویت یونین برقرار رہنے میں کامیاب رہا کیونکہ ہٹلر کی حکومت اس سے بھی زیادہ شدید بحران کا شکار تھی اور اتنے وسیع فاصلوں پر سوویت یونین کے خلاف طویل جنگ لڑنے کے قابل نہیں تھی۔
جنگ کی مشکلات جو پہلے ہی کمزور اور جبر کی وجہ سے خستہ حال ملک پر وارد ہوئیں وہ بے مثال تھیں: 11.4 ملین لڑائی میں مارے گئے۔ 7.4 ملین جان بوجھ کر ختم کر دیے گئے۔ جرمنی میں جبری مشقت میں 2.2 ملین ہلاک 4.1 ملین بھوک، بیماری اور طبی امداد کی کمی کی وجہ سے مر گئے۔ مجموعی آبادی کا نقصان 27 ملین افراد کو ہوا۔ چار سال کی جنگ کے دوران مادی نقصان سوویت یونین کی قومی دولت کا 30 فیصد تھا۔
یہ بات قابل غور ہے کہ نازیوں کی طرف سے کمیونسٹوں کے ساتھ 'خصوصی سلوک': 6 جون 1941 ('کمیسار آرڈر') کے ویہرماچٹ کے حکم کے مطابق سرخ فوج کے تمام سیاسی کارکنوں کو فوری طور پر گولی مار دی جاتی تھی۔ نتیجے کے طور پر کمیونسٹ پارٹی خاص طور پر فاشسٹ دہشت گردی سے بری طرح متاثر ہوئی۔ اگرچہ یہ طویل عرصے سے سٹالن کے قبضے میں رہی تھی اور اس نے اپنے بہترین لیڈروں کو کھو دیا تھا، لیکن پھر بھی اس کے پاس بڑی تعداد میں کمیونسٹ موجود تھے جو اکتوبر انقلاب کی کامیابیوں کے دفاع کے لیے پرعزم تھے۔ ہٹلر کے خلاف لڑنے والے 9.1 ملین کمیونسٹوں میں سے تین میں سے ایک مر گیا۔
یوم فتح پر اپنی تقریر میں پیوٹن نے کہا کہ وہ تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اپنے آپ کو تاریخی سچائی کے حامی کے طور پر پیش کرنے کی کوشش میں پیوٹن نے اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا کہ جرمنوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے بہت سے شعبوں میں ایک بار سب سے آگے اور ہٹلر کی پیروی کرنے اور سوویت یونین کے وجود کو چیلنج کرنے پر مجبور کیا۔ یہ سابق سٹالنسٹ کے جی بی ایجنٹ کے لیے حقیقی وجوہات بہت تکلیف دہ ہوں گی۔
دوسری عالمی جنگ کے اسباب اور سوویت یونین کے خلاف تھرڈ ریخ کی طرف سے شروع کی گئی تباہی کی جنگ کے ماخذ کو سمجھنے کے لیے پہلی عالمی جنگ اور 1917 کے اکتوبر انقلاب کے بعد کی صورت حال کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں سے یو ایس ایس آر ابھرا۔
پہلی عالمی جنگ کا آغاز اور 1917 میں اکتوبر انقلاب میں محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے نے جنگ سے پہلے کے سرمایہ دارانہ توازن کے خاتمے کی نشاندہی کی۔ اس کے بعد سے یورپ اور دنیا شدید سماجی بحرانوں اور انقلابی اور ردِ انقلابی حالات کے درمیان تیزی سے تبدیلیوں پر منتج ہوا۔
اس کا اختتام 1930 کی دہائی کے اوائل میں جرمنی میں ہونے والے واقعات پر ہوا جب جرمن محنت کش طبقے کو ہٹلر کی سربراہی میں نازیوں کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرنے کی دھمکی دی گئی جسے جرمنی میں پوری مالیاتی طبقہ کی حمایت حاصل تھی۔ جرمن محنت کش طبقے کی تنظیم، تجربے اور بڑی تعداد کے باوجود ہٹلر اقتدار میں آنے میں کامیاب رہا۔ اس نے فوری طور پر مزدوروں کی تمام تنظیموں، پارلیمنٹ اور عدالتوں کو تباہ کرنے کے لیے پیش قدمی کی اور ایک مطلق العنان آمریت قائم کی جس کا مقصد جنگ اور نسل کشی تھا۔
اس تباہی کی وجوہات کچھ 'جرمنوں کی خصوصی نفسیات' نہیں تھیں بلکہ جرمن کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی غلط انتہائی بائیں بازو کی پالیسیاں تھیں جو سٹالنائزڈ کمیونسٹ انٹرنیشنل کے براہ راست اثر میں تھی۔ جیسا کہ یو ایس ایس آر میں بیوروکریسی نے اپنی سیاسی طاقت اور سماجی مراعات کو مضبوط کیا، اس نے عالمی پارٹی سے کومینٹرن کو سوویت خارجہ پالیسی کا ایک آلہ بنا دیا۔ ہٹلر کے عروج کے خلاف جدوجہد میں کمیونسٹ اور سوشل ڈیموکریٹک جرمن مزدوروں کو متحد کرنے کے لیے ٹراٹسکی کی تجویز کردہ 'متحدہ محاذ' کی پالیسی کو مسترد کرتے ہوئے سٹالنسٹوں نے بغیر کسی لڑائی کے ہتھیار ڈال دیے اور نازیوں کے لیے اقتدار کا راستہ صاف کر دیا۔
اس کے نتیجے میں سب سے ترقی یافتہ یورپی ملک میں تاریخ کی سب سے رجعتی سرمایہ دارانہ حکومت کا قیام عمل میں آیا، جس نے تیزی سے دوبارہ ہتھیار بنانے کا آغاز کیا اور اپنے مشن کو بالشوزم اور سوشلزم کی دنیا سے چھٹکارا حاصل کرنے کے موقع کے طور پر دیکھا یعنی سب سے بڑھ کر سوویت یونین کے وجود کو ختم کرنا، ایک ایسا مقصد جسے سامراجی طاقتیں 1918— 1921 کی خانہ جنگی کے دوران حاصل کرنے میں ناکام رہی تھیں۔
رد عمل کے اس حملے نے سوویت عوام کے انقلابی شعور کو پھر سے جگایا جنہوں نے سٹالنزم کے بھیانک جرائم کے باوجود نازی ازم کے خلاف اکتوبر انقلاب کی فتوحات کا بہادری سے دفاع کیا۔ لیکن بلاخر یہ سٹالنسٹ بیوروکریسی ہی تھی جو 1941 میں نازی اپنا اصل حدف حاصل نہ کر سکیتھے وہ 1991 میں انہوں نے سوویت یونین کو تباہ کر کے انجام تک پہنچا دیا اور روس، یوکرین اور سابق سوویت یونین کے دیگر تمام حصوں میں سرمایہ داری کو مکمل طور پر بحال کر دیا۔ اس طویل رد انقلاب کے نتیجے میں ہی پیوٹن کی حکومت ابھری جس نے سٹالنسٹ نظریے کی ضروری خصوصیات کو وراثت میں حاصل کیا اور انہیں دوبارا زندہ کیا۔
اس لیے یہ کوئی اتفاقی بات نہیں ہے کہ پیوٹن حکومت پہلے سے زیادہ کھلے عام سٹالن کی بحالی کر رہی ہے۔ اسٹالن کی 110 یادگاروں میں سے جو آج روس میں موجود ہیں 95 پیوٹن کے دور میں تعمیر کی گئیں۔ حال ہی میں حکام نے ماسکو کے ایک مشہور میٹرو اسٹیشن میں سٹالن کی یادگار تعمیر کی ہے۔ اور ایک ہی وقت میں دہشت گردی کے متاثرین کی یادگاروں کو کئی مواقع پر بار بار توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ابھی حال ہی میں پیوٹن نے وولگوگراڈ ہوائی اڈے کا نام بدل کر اسٹالن گراڈ رکھنے کی منظوری دی، وولگوگراڈ کے اپنے پرانے اسٹالنسٹ نام پر واپس آنے پر اعتراض نہیں کیا۔ سٹالن کے ہاتھوں لاکھوں انقلابیوں اور بے گناہ شہریوں کے اجتماعی قتل کو 'عوام کے دشمنوں کے خلاف ضروری جدوجہد' کے طور پر تیزی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
پیوٹن کی سامراج کے ساتھ معاہدے کی امیدیں۔
پیوٹن نہ صرف سٹالنسٹ روایت کی پیروی کرتے ہوئے عظیم روسی شاونزم کو فروغ دے رہے ہیں اور اپنی تاریخی غلط فہمیوں کے ہمراہ خارجہ پالیسی میں بھی روسی حکمران طبقے کو سوویت بیوروکریسی کا یہ غیر معقول تصور وراثت میں ملا ہے کہ سودوں، چالبازیوں اور محنت کش طبقے پر حملوں کے ذریعے سامراجی طاقتوں کے ساتھ ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کا حصول ممکن ہے۔ لیکن یہ ان حالات میں ایسا کر رہا ہے جہاں سوویت یونین پہلے ہی تباہ ہو چکا ہے اور اس کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ہدف اشرافیہ کے مجرم گروہ کے مفادات کا تحفظ ہے جو سوویت بیوروکریسی سے سرمایہ دارانہ روس کے نئے حکمران طبقے کے طور پر ابھرے تھے۔
اس بنیادی رجحان کی تازہ ترین مثال پیوٹن حکومت کی طرف سے 'امن ساز' ٹرمپ سے اپیلوں میں مضمر ہے۔ ایک 'دستاویزی فلم' کی شوٹنگ کے دوران دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں پیوٹن نے امید ظاہر کی کہ ٹرمپ روس کے ساتھ معاہدہ کر لیں گے۔ ٹرمپ اور یورپیوں کے درمیان کشیدگی کا اندازہ لگاتے ہوئے پیوٹن نے خاص طور پر اطمینان کے ساتھ نوٹ کرتے ہیں کہ:
ٹرمپ اپنے کردار اور استقامت کے ساتھ ترتیب لائے گا اور تمام [یورپی اشرافیہ] اپنے آقا کے قدموں پر کھڑے ہوں گے اور آہستہ سے اس کی دم پر ہاتھ ماریں گے۔
دوسرے لفظوں میں پیوٹن کو امید ہے کہ یوکرین میں نیٹو کے خلاف پراکسی جنگ فاشسٹ صدر ٹرمپ کے 'کردار اور استقامت' کی بدولت حل ہو جائے گی جس کے تحت امریکہ اور اس کے یورپی سامراجی حریفوں کے درمیان تنازعات کھل کر پھٹ چکے ہیں۔
پیوٹن نے بھی حال ہی میں اعتراف کیا کہ 2014 میں روس یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ درحقیقت روس فروری 2022 میں بھی تیار نہیں تھا، جب اس نے حملہ کیا یہ بھی انتہائی رجعتی اور لاپروا اقدام تھا۔ اس وقت بھی کریملن نے سامراجی طاقتوں اور کیف حکومت کو روس کے لیے زیادہ سازگار امن پر مجبور کرنے کے لیے ایک فوری فتح پر اعتماد کیا۔ یہ تصوراتی 'فوری فتح' تین سال تک جاری رہنے والی دستبرداری کی جنگ نکلی۔
اسی وقت پیوٹن نے آبادی کی وسیع پرتوں کو جنگ میں گھسیٹنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے لیکن ساتھ ہی وہ پہلی عالمی جنگ کے دوران زار کی حکومت کی قسمت کو دہرانے کے خطرات سے آگاہ ہیں جو لاکھوں فوجیوں کو قتل عام پر بھیجنے کے بعد اسکا تختہ الٹ دیا گیا تھا۔
جب پیوٹن نے ستمبر 2022 میں فوج کو جزوی طور پر متحرک کیا تو یہ ان کی حکمرانی کے لیے سب سے خطرناک اقدامات میں سے ایک تھا۔ آبادی کا ردعمل اس قدر مخالفانہ تھا کہ پیوٹن نے دوبارہ اسی طرح کے اقدامات کرنے کی ہمت نہیں کی، اسکی بجائے اس نے نقد ادائیگیوں کے ذریعے فوج کو بھرتی کرنے پر توجہ دی اس طرح شدید مالی مشکلات میں محب وطن افراد اور قیدیوں کی ایک خاص تعداد کو راغب کیا۔
11 مئی کی رات پیوٹن نے اعلان کیا کہ وہ 15 مئی کو استنبول میں امن مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہیں اور زیلنسکی نے استنبول کا سفر کرنے کی اپنی رضامندی کے ساتھ جواب دیا۔ پابندیوں، جمود کا شکار پیداواری عمل اور اقتصادی تباہی کے خوف سے پیوٹن سماجی بدامنی کو روکنے کے لیے اس معاہدے پر رضامند ہو سکتے ہیں جو ان کے لیے کم سازگار ہو۔ حب الوطنی میں اضافے کی ان کی امید جو جنگ کے ابتدائی سالوں میں کسی حد تک جائز تھی آج اتنی مقبول اور مستحکم نہیں ہے۔
حب الوطنی میں ابتدائی اضافہ کم از کم آبادی کی اکثریت میں فاشزم کے خلاف جنگ کی ہولناکیوں کی اب بھی واضح یادوں پر مبنی تھا۔ ان جذبات کی اپیل اور ان سے ہیرا پھیری کرتے ہوئے، 'انقلاب کے قبر کھودنے والے' سٹالن کے وارث پیوٹن نے خود کو فاشزم کے خلاف جدوجہد کا وارث بنا کر پیش کیا۔ اس پروپیگنڈے کو سامراجی طاقتوں کی جانب سے یوکرین میں نیو نازی افواج کے کھلے عام فروغ سے مدد ملی جن کے جرائم دوسری عالمی جنگ کے دوران مشہور ہیں۔ پھر بھی کوئی تاریخی جعل سازی اور قوم پرستانہ پروپیگنڈہ روسی معاشرے میں موجود شدید طبقاتی تضادات کو مکمل طور پر چھپا نہیں سکتا۔
پیوٹن کی حکومت جدید روس کی تاریخ میں سب سے بڑی سماجی عدم مساوات کی محافظ ہے۔ فوربز کے مطابق جنگ کے دوران بھی روسی ارب پتیوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو 146 تک پہنچ گئی ہے۔ صرف 2024 میں یہ 146 افراد مجموعی طور پر 48.7 بلین ڈالر تک اپنی دولت بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔
پیوٹن ایک بوناپارٹسٹ شخصیت کے طور پر ابھرے ہیں جن کا بنیادی کام اشرافیہ کے مختلف دھڑوں اور اشرافیہ اور سامراج کے درمیان توازن قائم کرکے اشرافیہ کی اس بے پناہ دولت کی حفاظت کرنا ہے۔ تاہم کریملن کی فوجی اور اقتصادی پالیسیوں نے روسی سرمایہ داری کے تمام جنگ سے پہلے کے عدم توازن کو مزید بڑھا دیا ہے۔
ایک تجربہ کار سیاست دان کے طور پر جسے سٹالنسٹ کے جی بی نے تربیت دی تھی پیوٹن اچھی طرح جانتے ہیں کہ 'قوم کے نجات دہندہ' کے طور پر ان کا کردار تیزی سے خطرے میں ہے۔ تاہم اس کے پاس سامراجی طاقتوں کے ساتھ جوڑ توڑ اور محنت کش طبقے کو منتشر کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے قوم پرستی کو فروغ دینے کے علاوہ اپنی حکومت کے گہرے ہوتے بحران کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔ سامراج کے خلاف عوام کو تحفظ فراہم کرنے سے کوسوں دور یہ پالیسی جس کی جڑیں اشرافیہ کے طبقاتی مفادات میں ہیں یوکرین کی جنگ سے بھی بڑی تباہی کی بنیادیں بناتی ہے جس میں پہلے ہی لاکھوں جانیں جا چکی ہیں۔
اگرچہ یہ اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ ماسکو اور کیف کس قسم کے معاہدے پر پہنچیں گے لیکن یہ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی معاہدہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ان بنیادی تضادات کو حل نہیں کرے گا جو سامراجی طاقتوں کو دنیا کی ایک نئی تقسیم کے لیے پہلے سے زیادہ جارحانہ انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ حکمت عملی میں جو بھی تبدیلیاں رونما ہوں سابق سوویت یونین کے وسائل پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا آج سامراجی طاقتوں کے لیے اس سے کم اہم نہیں ہے جتنا کہ دوسری عالمی جنگ میں نازی حکومت کے لیے تھا۔ غزہ میں نسل کشی تشدد کی اس سطح کے بارے میں ایک خوفناک انتباہ ہے جسے سامراج آج اپنے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔
لہٰذا نازی ازم پر فتح کی 80 ویں سالگرہ کے موقع پر روس میں مزدوروں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی قسمت اور دوسرے ممالک کے محنت کشوں کے درمیان ناقابل حل تعلق کو سمجھیں۔ صرف محنت کش طبقے کا عالمی انقلاب ہی دنیا کی دوبارہ تقسیم پر ابھرتی ہوئی سامراجی کشمکش کو روک سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے روسی محنت کش طبقے اور سابق سوویت یونین میں رہنے والے اس کے بھائی بہنوں کو دوسری عالمی جنگ اور سٹالنزم کی رد انقلابی پالیسوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور شعوری طور پر اکتوبر انقلاب کی روایات کی طرف لوٹنا چاہیے جو لینن، ٹراٹسکی اور بائیں بازو کی اپوزیشن کی جدوجہد کے مجسم تھے۔
ہمارے کامریڈ بوگڈان سیروتیوک، جو بالشویک-لیننسٹوں کے نوجوان محافظ (وائے جی بی ایل) کے رہنما ہیں نے بالکل ان اصولوں کے لیے جدوجہد کی ہے۔ اسی وجہ سے اسے یوکرین میں زیلنسکی حکومت نے قید کر رکھا ہے۔
اس سالگرہ کے موقع پر ہم سابق سوویت یونین کے تمام مزدوروں اور نوجوانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بوگڈان سیروتیوک کی رہائی کی مہم میں شامل ہوں اور بین الاقوامی پروگرام کے لیے جدوجہد کریں جس کی بوگدان اور وائے جی بی ایل نمائندگی کرتے ہیں۔
روس اور یوکرین کے مزدوروں کو سامراج اور ماسکو اور کیف کی اشرافیہ حکومتوں کے خلاف متحد کریں!
بالشویک-لیننسٹوں کے جوان گارڈ میں شامل ہوں!
سابق سوویت یونین میں چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی بنائیں!