یہ 17 مئی 2025 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Indian workers and students speak out against Modi government’s assault on Pakistan and anti-Muslim incitement' اس انٹرویوز کا اردو ترجمہ ہے۔
گزشتہ ہفتے انڈیا اور پاکستان ایک ہمہ گیر جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے جو تیزی سے ایٹمی تنازعہ میں تبدیل ہو سکتی تھی۔
صرف چار دن کی شدید لڑائی کے بعد جس میں میزائل حملے، فضائی ڈاگ فائٹ اور سرحد پار سے حملے شامل تھے ایک غیر یقینی اور متزلزل جنگ بندی تک پہنچ گے۔
کشیدگی برقرار ہے دونوں فریق ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں اور شہریوں اور مذہبی مقامات کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔
انڈیا کی حکومت جس کی قیادت نریندر مودی اور اس کی ہندو بالادستی پسند بی جے پی کر رہی ہے اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ پاکستان کے خلاف ان کی فوجی مہم جسے ’’آپریشن سندھور‘‘ کہا جاتا ہے محض عارضی طور پر ’’ملتوی‘‘ کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے تجاویز پر ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہے کہ جلد ہی کشیدگی میں کمی کے مذاکرات ہوں گے۔ نئی دہلی صرف ان دو چیزوں پر اسلام آباد کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، مودی نے گزشتہ سموار کو قوم سے خطاب میں اصرار کیا اس کے مطالبات میں 'دہشت گردی' کے لیے پاکستان کی حمایت اور پاکستان کی جانب سے اس کے زیر کنٹرول منقسم کشمیر کے انڈیا سے دستبرداری سے متعلق ہیں۔
مودی حکومت جنگ مخالف کسی بھی سرگرمی کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔ تمل ناڈو کی ایس آر ایم یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر لورا ایس کو سوشل میڈیا پر آپریشن سندھور پر تنقید کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ آزاد صحافیوں کو گرفتاری کا سامنا ہے اور شہری آزادیوں پر حملہ ہو رہا ہے۔
لیکن سماج کی سطح کے نیچے تنقیدی آوازیں بڑھ رہی ہیں خاص طور پر مزدوروں اور طلباء میں۔ یہ سب کچھ بڑے پیمانے پر بے روزگاری، آسمان کو چھوتی قیمتوں اور جو حالات زندگی کی بگڑتی ہوئی مشکلات سے متصادم ہیں اسکا عملی اظہار ہیں۔
تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور مغربی بنگال سمیت کئی ریاستوں میں مزدوروں اور طلباء نے ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کے نامہ نگاروں سے بات کی اور جنگ کے خلاف اپنے غصے اور مخالفت کا اظہار کیا۔
دھنیش، تامل ناڈو میں رینالٹ نسان فیکٹری کے مزدور کے خیالات:
اس جنگ کا عام لوگوں اور عام مزدوروں کے لیے کوئی فائدہ نہیں۔ یہ صرف انڈیا اور پاکستان دونوں ممالک میں عام لوگوں کی بہت سی جانوں اور املاک کی تباہی کا باعث بنے گا۔ امریکہ، روس اور یہاں تک کہ انڈیا جیسے ممالک کے پاس جنگ کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار اور میزائل ہیں۔ جنگی سازوسامان محنت کش طبقے کے لیے کسی کام کے نہیں اور جو مکمل طور پر تباہ کن ہیں۔
مودی سرکار ہمیشہ ان دہشت گردانہ حملوں کو اپنے انتخابی مقصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہے جس سے ہم پچھلے واقعات میں بھی دیکھے ہیں۔ ایک مثال پلوامہ حملہ [جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع میں 2019 کا دہشت گردانہ حملہ] کی تھی۔
درحقیقت میں یہ کہوں گا کہ حکومت کی جانب سے جان بوجھ کر ایسا ہونے دیا گیا تھا تاکہ وہ اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ وزیر داخلہ امت شاہ فوراً دہشت گردانہ حملے کے مقام پر گئے۔ جب منی پور میں تشدد ہوا تو وہ کیا کر رہا تھا؟ [مودی کی بی جے پی نے 2023 میں ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست منی پور میں نسلی فرقہ وارانہ جھڑپوں کو ہوا دی جس میں سینکڑوں شہری مارے گئے]۔ لیکن وہ وہاں بھی نہیں گیا۔
میرا ماننا ہے کہ انڈین اور پاکستانی مزدوروں کے درمیان یکساں احساس اور مشترکات ہیں۔ لیکن ان کو متحد کرنے کے لیے ایک قیادت ہونی چاہیے۔ مجھے لگتا ہے کہ اب مزدوروں پر حاوی ہونے والی سرکاری قیادت مکمل طور پر جعلی ہے اور دھوکہ دہی سے کام لے رہی ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ اور اس کے خیالات حقیقی ہیں۔ میں اس کے انڈین اور پاکستانی اور حتیٰ کہ عالمی مزدوروں کے اتحاد کے مطالبے سے پوری طرح متفق ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کے خیالات طاقتور ہیں۔ پھر بھی میری واحد تشویش یہ ہے کہ اسے وسیع تر عوام تک پہنچنا چاہیے۔ ہمیں اس کی طرف قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
سینیبان، چنئی میں ایک آئی ٹی پروفیشنل:
جب کہ میں پہلگام (22 اپریل کو) میں دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے کیے گئے مظالم کی واضح طور پر مذمت کرتا ہوں کوئی بھی عقلمند فرد انتہائی اشتعال انگیز اقدامات یا مہا جنگجوانہ وطن پرستی کے ردعمل کے طور پر پورے ملک کے خلاف تباہ کن جنگ چھیڑنے کی حمایت نہیں کرے گا۔
پہلگام واقعہ دہشت گردی کی ایک بے رحمانہ کارروائی تھی جس میں جان بوجھ کر شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاہم کسی حکومت کو اس طرح کے سانحے کا فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے تاکہ وہ جنگی جنون کو ہوا دے اور اسے پاکستان کے خلاف ایک متضاد جارحانہ جنگ کے لیے جنگی مہم چلانے کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرے۔
میں ایک مزدور ساتھی اور مارکسزم کے طالب علم کی حیثیت سے انڈیا اور پاکستان دونوں حکومتوں کے تباہ کن اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہوں جو معصوم محنت کش لوگوں کی جانیں لے لیتے ہیں جن کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس واقعے کو دونوں ملکوں کے محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہد کے لیے ایک بڑے پیمانے پر جنگ مخالف اور سرمایہ داری مخالف تحریک کی تعمیر کے لیے جدوجہد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
یہ پیش رفت سامراجی جنگ کے خلاف اور عالمی سوشلزم کے لیے بین الاقوامی محنت کش طبقے کی متحدہ جدوجہد کی مہم کو تیز کرنے کے لیے محنت کشوں اور نوجوانوں کو ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کے ساتھ ہاتھ ملانے کی فوری ضرورت پر زور دیتی ہے۔
اکیلان، ایک صنعتی مزدور:
22 اپریل کو پہلگام میں ایک مشہور سیاحتی مقام پر حملہ ہوا جہاں بہت سے لوگ سیر و تفریح کے لیے جاتے ہیں۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو واپس لینے کے لیے 2019 میں آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کے بعد بھارتی حکمراں بی جے پی حکومت نے کہا کہ اس کے بعد کشمیر 'آزاد' اور محفوظ جگہ بن گیا ہے۔
لیکن یہ بھارتی حکمران اشرافیہ کا پروپیگنڈہ تھا اور دہشت گردانہ حملے میں 26 افراد کی ہلاکت نے ثابت کر دیا کہ بھارتی حکومت نے وہاں انتہائی فوجی دستوں کی تعیناتی کے باوجود کشمیر کے عوام اور سیاحوں کی حفاظت نہیں کی۔ بی جے پی نے جان بوجھ کر حملہ ہونے دیا تاکہ وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے اس کا فائدہ اٹھا سکیں اور ہندوستانی عوام کی توجہ بے روزگاری، ملازمتوں میں کمی، مہنگائی اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران سے ہٹا سکیں۔
اس کے علاوہ، ہندوتوا قوتیں جیسے بی جے پی، بجرنگ دل [بی جے پی کے قریب ایک متشدد ہندو بالادستی کی تنظیم] اور شیو سینا [ایک فاشسٹ مراٹھی علاقائی سیاسی پارٹی] دہشت گردانہ حملے کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہراتی ہیں۔ مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کی دکانوں پر ان ہندوتوا قوتوں نے حملہ کیا جو عوام میں مسلم نفرت کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لیکن مارے گئے بحریہ کے افسر ونے نروال کی اہلیہ نے مسلمانوں پر حملہ نہ کرنے اور نہ ہی مسلم نفرت پھیلانے کو کہا۔ حملے کے دن بہت سے سیاحوں کا کہنا تھا کہ کشمیری شہریوں نے انہیں صرف دہشت گردوں سے بچایا اور کوئی فوجی یا پولیس فورس نے وہاں پہنچ کر ان کی مدد نہیں کی۔ اس سے کشمیری شہریوں کی بھائی چارگی ظاہر ہوتی ہے۔
انڈیا میں محنت کش طبقے کے علاوہ اس فاشسٹ بی جے پی حکومت اور جنگ کے خلاف کوئی ترقی پسند قوت نہیں ہے۔ میں اتفاق کرتا ہوں کہ انڈیا اور پاکستان میں محنت کش طبقے اور طلباء کو اس جنگ اور اس خطرناک جنگ میں ملوث ان کے متعلقہ ممالک کی مخالفت کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے ایک صحت کے شعبے کے نمائندے نے مودی حکومت کی طرف سے شروع کی گئی جنگی مہم کی مخالفت کی اور موجودہ تنازعہ کی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ: 'ہند پاکستان تنازعہ کی جڑیں 1947 کی فرقہ وارانہ تقسیم میں پیوست ہیں جو برطانوی سامراج نے کانگریس پارٹی اور مسلم لیگ کے ساتھ مل کر بنایا تھا۔
کولکتہ کے ایک مزدور آکاش دیو نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
دونوں ممالک کے شہریوں کی اکثریت روزانہ کی بنیاد پر بڑی مشکل سے اپنی بقا کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے - بے روزگاری، کم اجرت، صحت کی دیکھ بھال کا ایک ناکام نظام اور ناکافی تعلیم سے ان کی مشکلات لامتناہی لگتی ہیں۔ یہ جنگ ان کے مصائب کو مزید گہرا کرے گی محنت کش طبقے اور غریبوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کرے گی۔
ملکی سلامتی اور قوم کے تحفظ کے نام پر حکمران طبقہ جہالت کی آبیاری کرتا ہے۔ یہ وہی حکمران طبقہ ہے جس نے کوویڈ-19 کے بحران کے دوران زندگیاں بچانے کے لیے لاک ڈاؤن سے گریز کو ترجیح دی۔ ان کی پالیسیوں نے بالآخر سرمایہ دار طبقے کو فائدہ پہنچایا جب کہ ان لاپرواہ فیصلوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ نے بڑے نقصان اٹھائے اور ہلاک ہوئے۔
عالمی سطح پر چاہے ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک میں جب لوگوں کی فلاح و بہبود کو بہتر بنانے کی بات آتی ہے تو ہمیشہ فنڈز کی کمی ہوتی ہے۔ پھر جب بھی جنگ اور تباہی کی بات آتی ہے تو وسائل کی کمی کبھی نہیں ہوتی۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ جنگ صرف تباہی لاتی ہے جس کا سب سے زیادہ بوجھ محنت کش طبقے اور غریبوں پر ہوتا ہے۔ محنت کشوں، طلبہ اور نوجوانوں کو جنگ کی مخالفت اور امن کا مطالبہ کرنے کے لیے متحد ہونا چاہیے۔
ایک ریٹائرڈ ٹیلی کام مزدور ناچیپن نے مودی سرکار کی جنگی مہم پر سخت تنقید کی اور کہا: 'دہشت گردوں نے بے گناہ لوگوں کو مارا اس کے باوجود مودی حکومت کا یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ جب پاکستان کی حکومت بھارت میں میزائل یا ڈرون بھیجتی ہے تو اس کا شکار معصوم لوگ ہوتے ہیں دونوں طرف ہی محنت کش مرتے ہیں۔ جب انڈیا کے وزیر، نائب وزیر اور وزیر خارجہ پاکستان کو تباہ کرنے اور پاکستان میں میزائل داغنے کی بات کرتے ہیں تو اس کا نقصان عام بے گناہ لوگوں کو ہوگا لیکن کچھ فوجی جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے۔
'ایک مزدور کی حیثیت سے میں کسی بھی ایسے اقدام کا مخالف ہوں جس سے مزدوروں کی زندگیوں اور مفادات پر اثر پڑے۔ میں دونوں ملکوں میں محنت کشوں کے طبقاتی اتحاد کے لیے ہوں۔'
تمل ناڈو میں ایک اسسٹنٹ فلم ڈائریکٹر شیام نے کہا:
فاشسٹ بی جے پی پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جب بی جے پی انتظامیہ نے 2019 میں آرٹیکل 370 کو منسوخ کیا تو اس نے کہا کہ نہ صرف کشمیری بلکہ ہر ہندوستانی اب کشمیر میں زمین لے سکتے ہیں۔ حملے پر بی جے پی لیڈروں کی بزدلانہ تقریریں صیہونیت کے ساتھ ان کے نظریاتی اتحاد کو بے نقاب کرتی ہیں جو انڈیا کشمیر میں حاصل کرنا چاہتا ہے جیسا کہ اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے۔
یہ حملہ کشمیر میں ہوا جو ایک انتہائی فوجی حصار کا علاقہ ہے اور سیاحوں کے لیے سب سے زیادہ محفوظ ہے۔ اگر بی جے پی حکومت سیکورٹی کو برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہے تو مودی کو اس جرم کی پاداش میں اقتدار چھوڑ دینا چاہئے.
شیام نے مزید کہا کہ 'بی جے پی مسلمانوں کی نفرت کو فروغ دے کر لوگوں کو ایک فاشسٹ طاقت کے طور پر بڑے پیمانے پر منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ فاشزم کا ایک بنیادی جزو بھی ہے۔'
ابیشیگا پریان، انڈین سول سروس (آئی سی ایس) امتحان کے لیے زیر تعلیم طالب علم:
خاص طور پر یہ جنگ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں اور ان ممالک کے حکمران اشرافیہ کی خدمت کرتی ہے۔ اس کا عام لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔
انڈیا پاکستان جنگ کو جھوٹے پروپیگنڈا کے طور پر ہندو اور مسلم لوگوں کے درمیان جنگ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
انڈین حکومت کو اپنے عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔ پاکستان اور انڈیا کی یہ جنگ ہمیں اس بات کو مزید واضح کرتی ہے۔
بی جے پی کی قیادت والی حکومت اشیائے ضرورت پیٹرول اور ڈیزل کی آسمان چھوتی قیمتوں، بے روزگاری کی شرح میں زبردست اضافہ کے ساتھ عوام کے خلاف ایک پوشیدہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ مناسب تعلیم اور صحت عامہ تک رسائی نہیں ہے۔ اس خاموش جنگ سے جہاں ہم سب کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے، اڈانی، امبانی اور دیگر انڈین سرمایہ دار پاکستان کے ساتھ اس جنگ کو ہمیں مزید پامال کرنے کے لیے استعمال کریں گے۔
یہ جنگ [پاکستان کے خلاف] مایوس غریب ہندوستانی عوام کے سماجی غصے کو حکمران طبقے کے خلاف ٹالنے کے لیے ایک فریب اور دھوکہ دہی ہے۔ بی جے پی حکومت نے یہ جنگ ہندوستانی عوام کو درپیش سماجی اقتصادی بحران کو حل کرنے میں اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے شروع کی۔
جب اس جنگ میں انڈیا اور پاکستان کے بے گناہ لوگ مارے جا رہے ہیں تو اس جنگ کو کسی بھی ملک کی فتح کے طور پر نہیں منایا جا سکتا۔ لیکن انڈین حکومت اس جنگ کو استعمال کرتے ہوئے قوم پرستانہ جنون کو مزید فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے جیسا کہ انڈیا کی حکومت عام طور پر کرکٹ میچ پر کرتی ہے۔ میں دونوں ملکوں کے سرمایہ داروں کی اس جنگ کی مخالفت کرتا ہوں جسے ہندوستانی عوام میں مسلم نفرت پھیلانے اور تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔