اُردُو‎
Perspective

پاکستان انڈیا تنازع سے ایٹمی تباہی کا خطرہ لاحق ہے۔

یہ 12 مئی 2025 میں لکھے گئے اس تناظر کا 'India-Pakistan conflict threatens nuclear catastrophe' اردو ترجمہ ہے۔

انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کی طرف سے جاری کردہ اس تصویر میں 1 مئی 2025 جمعرات، پاکستان کے ضلع جہلم میں ٹیلہ فیلڈ فائرنگ رینج میں فوجی مشقوں کے دوران پاکستانی فوج کے توپ خانے سے فائر شیل کے بعد فرضی ہدف پر دھواں اٹھ رہا ہے۔ [اے پی فوٹو: انٹر سروسز پبلک ریلیشنز] [AP Photo/Inter Services Public Relations]

انڈیا اور پاکستان جنوبی ایشیا کی حریف ایٹمی طاقتیں ہمہ گیر جنگ کے دہانے پر ہیں۔ ایسا تنازعہ نہ صرف خطے کے 2 ارب لوگوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوگا۔ انڈیا پاکستان جنگ تیزی سے ایٹمی تباہی کی طرف بڑھ سکتی ہے اور دوسری بڑی طاقتوں بالخصوص امریکہ اور چین کو اپنی طرف کھینچ سکتی ہے۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بارہا خبردار کیا ہے کہ پاکستان جو انڈیا کی آبادی کا چھٹا حصہ ہے اور اسکی معیشت کے حجم کا دسواں ہے اپنے جوہری ہتھیاروں کو استعمال کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ گزشتہ بدھ کو انڈیا کے بڑے پیمانے پر میزائل حملے کے بعد جس میں 75 سے زائد جنگی طیاروں بشمول جدید رافیل جیٹ طیارے شامل تھے، خواجہ آصف نے کہا تھا کہ اگر انڈیا 'خطے پر ہمہ گیر جنگ مسلط کرتا ہے … تو کسی بھی وقت ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔'

 سرحد پار سے میزائل حملوں اور توپ خانے کے تبادلے کے چار دن کے بعد جو کہ صرف متنازعہ کشمیر کے علاقے تک محدود نہیں تھے۔ اور پھر ہفتے کے روز جنگ بندی— کیا نئی دہلی اور اسلام آباد نے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ آیا جنگ بندی جس کا اعلان سب سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر کیا تھا سنگین شکوک و شبہات کا شکار ہے۔

جنگ بندی کے بعد تقریباً فوراً ہی دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا، دونوں ہی جنگ میں اپنی اپنی برتری کا دعویٰ کرتے رہے ۔ نئی دہلی اور اسلام آباد نے جان بوجھ کر شہریوں اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کے اشتعال انگیزُ فرقہ وارانہ الزامات کو فروغ دیا ہے۔

انڈیا اس بات پر بضد ہے کہ اسکے زیر انتظام کشمیر میں 22 اپریل کو ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا الزام پاکستان پر عائد کرنے کے بعد اختیار کیے گئے تمام اقدامات نافذ العمل رہیں گے۔ ان میں سندھ طاس معاہدہ کو معطل کرنا بھی شامل ہے- اسلام آباد نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے 'جنگ کا عمل' قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اس سے پاکستان کی زراعت خوراک کی فراہمی اور بجلی کی پیدوار کو خطرہ ہے۔

جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا خطرناک طور پر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاستوں کے درمیان پہلی بار ہونے والی جنگ کے قریب پہنچ چکی ہے۔

ان پیش رفتوں کو عالمی بین ریاستی تعلقات میں وسیع تر توڑ پھوڑ کے طور پر سمجھنا چاہیے۔ عالمی جیوپولیٹیکل کے افق پر تیزی سے بڑھتے ہوئے تجارتی تنازعات، امریکہ اور دیگر سامراجی طاقتوں کی قیادت میں بڑے پیمانے پر دوبارہ ہتھیار بنانے کے پروگرام، علاقائی جنگوں کے پھوٹنے، غزہ میں سامراجی حمایت یافتہ نسل کشی اور جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو 'معمول' کرنے کے لیے تیزی سے غلبہ حاصل کر رہی ہے۔

انڈیا اور پاکستان کو بار بار جنگی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا خاص طور پر 2016 اور 2019 میں جب واشنگٹن نے نئی دہلی کی پاکستان کے خلاف غیر قانونی سرحد پار حملے شروع کرکے 'گیم کے اصولوں کو تبدیل کرنے' کی کوششوں کی حمایت کی۔ تاہم گزشتہ ہفتے کی فوجی جھڑپیں کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ شدید تھیں جن میں بڑے پیمانے پر لڑاکا جیٹ ڈاگ فائٹ، فضائی دفاعی نظام پر حملے اور پہلی بار ڈرون اور سرحد پار میزائل حملے شامل تھے۔

انڈیا اور پھر پاکستان نے جان بوجھ کر ایک دوسرے کی سرخ لکیریں عبور کیں۔ 6 اور 7 مئی کو انڈیا کے حملے نے پاکستان کے صوبے پنجاب کے اندر متعدد اہداف کو نشانہ بنایا۔ جیسے جیسے لڑائی بڑھی دونوں اطراف نے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا اور اسلام آباد کے مطابق راولپنڈی میں پاکستان کے فوجی ہیڈکوارٹر کے قریب ایئر بیس پر حملہ کرنے کی انڈیا کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایک یا دونوں فریقوں نے ٹیکٹیکل جوہری وار ہیڈز لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائلوں کا استعمال کیا ہے۔

دونوں ممالک کے پاس ٹیکٹیکل اور اسٹریٹجک جوہری ہتھیار ہیں جو ایک دوسرے کے بڑے آبادی کے مراکز کو جلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 2008 کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ صرف 100 ہیروشیما کے سائز کے بموں پر مشتمل ایک محدود تبادلے جو کل 1.5 میگاٹن کے برابر مواد- ایک تباہ کن 'جوہری موسم سرما' کو متحرک کر سکتا ہے۔

جیسا کہ رچرڈ رہوڈز نے 2012 کے ایڈیشن دی میکنگ آف دی ایٹم بم میں وضاحت کی تھی کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان جوہری تبادلہ

ناگزیر طور پر آتش گیر مادوں سے بھرے شہروں کو نشانہ بنایا جائے گا جو [آگ کے طوفانوں کے سبب] بڑے پیمانے پر کالے دھوئیں اوپر کی فضا میں منتقل کرے گا جو پوری دنیا میں پھیل جائے گا زمین کو کافی دیر تک ٹھنڈا کرے گا اور دنیا بھر میں زرعی تباہی پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 20 ملین دھماکوں آگ اور تابکاری سے فوری طور پر مر جائیں گے، اس کے بعد بڑے پیمانے پر بھوک سے ایک ارب تک اموات ہوں گی۔

محنت کشوں کو ٹرمپ اور اس کے حاشیہ نشینوں کی طرف سے انڈیا -پاکستان تنازعہ میں کشیدگی میں کمی کے لیے واشنگٹن کی دیر سے کیے گے رابطوں کی کوششوں کو حقارت کے ساتھ پیش کرنا چاہیے جس سے فاشسٹ صدر فائدہ اٹھاتے ہوئے امن کے چیمپئن ہونے کے جھوٹے دعووں کو تقویت دے سکے۔

اسکے امن کے یہ دکھاوے یہاں تک محدود نہیں ہیں بلکہ ٹرمپ نئے فوجی حملے اور جان بوجھ کر فاقہ کشی کے ذریعے غزہ میں نسل کشی کو مکمل کرنے کے لیے اسرائیل کی کوششوں کو فعال کر رہا ہے، ایران کو 'مٹا دینے' کی دھمکی دے رہا ہے، چین کے ساتھ واشنگٹن کے تصادم کو بڑھا رہا ہے اور 1 ٹریلین ڈالر کے دفاعی بجٹ کو آگے بڑھا رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں امریکی سامراج کا کردار ہر جگہ کی طرح آگ بھڑکانے والا ہے۔

 دہائیوں سے زیادہ عرصے سے واشنگٹن نے بڑھتے ہوئے چین کے خلاف اپنے فوجی اسٹریٹجک حملے میں ہندوستان کو شامل کرنے کو ترجیح دی ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں انتظامیہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو ڈرامائی طور پر گھٹاتے ہوئے نئی دہلی کو بڑی اسٹریٹجک رعایتیں دی ہیں۔

انڈیا-امریکہ 'عالمی اسٹریٹجک پاٹنرشپ' نے ہندو بالادست پسند بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت حکومت کو پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کے موقف میں حوصلہ دیا ہے جبکہ اسلام آباد کو بیجنگ کے ساتھ اپنے اتحاد کو گہرا کرنے کی جانب دکھیل دیا ہے۔ اس میں چین پاکستان اقتصادی راہداری پر تعاون بھی شامل ہے جس کا مقصد چین کو انڈیا اور بحرالکاہل کے اہم مقامات کی ناکہ بندی کرنے کی امریکی کوششوں کا متبادل فراہم کرنا ہے۔

اس طرح انڈیا پاکستان تنازعہ چین کے عروج کو ناکام بنانے کی امریکی سامراج کی کوششوں کے ساتھ تیزی سے جڑا ہوا ہے جس سے دونوں ممالک کے دھماکہ خیز کردار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک مکمل جنگ سے یوریشین جیو پولیٹیکل آرڈر کے خاتمے کے ساتھ ہی امریکہ اور چین کی فوجی مداخلت سے ناگزیر طور پر علاقائی تصادم کو عالمی تصادم میں تبدیل کرنے کا خطرہ ہوگا۔

یہ سامراجی حکمران طبقات کی لاپرواہی کا ایک پیمانہ ہے جو عالمی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے بحران اور ساتھ ہی عالمی طبقاتی جدوجہد کی بحالی کا سامنا کر رہے ہیں کہ واشنگٹن نے جنوبی ایشیا کے جنگی بحران کو اس وقت تک نظر انداز کیا جب تک کہ انڈیا اور پاکستان تیزی سے بڑھتے ہوئے فوجی حملوں کے گرداب میں پھنستے گئے جو تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

اپنی حال ہی میں شائع شدہ یادداشت میں مائیک پومپیو، ٹرمپ کے پہلے دور کے وزیر خارجہ لکھتے ہیں کہ 2019 میں انڈیا کے اس وقت کے وزیر خارجہ نے انہیں بتایا تھا کہ نئی دہلی کا خیال ہے کہ پاکستان جوہری ہتھیاروں کو تعینات کرنے کی تیاری کر رہا ہے — اور اس کے جواب میں اپنے ہتھیاروں کو تیار کر رہا ہے۔

پومپیو نے لکھا:

مجھے نہیں لگتا کہ دنیا اچھی طرح سے جانتی ہے کہ فروری 2019 میں انڈیا اور پاکستان دشمنی جوہری تصادم کی طرف بڑھنے کے کتنے قریب پہنچ چکی تھی۔

ابھی حال ہی میں گزشتہ جمعرات کی طرح امریکی نائب صدر جے ڈی وینس جنہوں نے گزشتہ ماہ نئی دہلی کا دورہ کیا تھا تاکہ انڈیا-امریکہ چین مخالف فوجی اتحاد کو مزید گہرا کیا جاسکے، بڑے دھڑلے سے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی جنگ سے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ یہ تنازعہ 'بنیادی طور پر ہمارے لیے کوئی کاروبار نہیں تھا۔'

بائیڈن انتظامیہ کے تحت امریکہ کی طرف سے شروع کی گئی عالمی جنگ کی شکلیں یوکرین میں روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی اکسائی گئی جنگ، 'فلسطین کے سوال' کا 'حتمی حل' مسلط کرنے کی امریکی-اسرائیلی مہم اور مشرق وسطیٰ کے نقشے کی ازسرنو تشکیل اور چین کے خلاف امریکہ کی تیز تر مہم کے ذریعے شکل اختیار کر گئی ہیں۔

اب ٹرمپ جو کہ اشرافیہ، آمریت اور سامراجی تشدد کا مجسمہ ہے نے اپنی عالمی تجارتی جنگ اور کنیڈا اور گرین لینڈ سے لے کر پاناما نہر اور غزہ تک الحاق کے اہداف کی فہرست میں توسیع کے ذریعے بین ریاستی تعلقات کے خاتمے کو تیز کر دیا ہے۔

لیکن تمام سامراجی اور کم سرمایہ دار طاقتیں اسی راستے پر گامزن ہیں، منڈیوں، وسائل اور سٹریٹجک علاقوں پر کنٹرول کے لیے بے رحم جدوجہد میں برسر پیکار ہیں۔ یہ مہم انہی ضروری تضادات سے چلتی ہے جنہوں نے پچھلی صدی کی دو عالمی جنگوں کو جنم دیا۔

جیسا کہ ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس انٹرنیشنل ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ڈیوڈ نارتھ نے بین الاقوامی یوم مئی آن لائن ریلی سے اپنے خطاب میں وضاحت کی:

سیاسی بربریت اور تباہ کن عالمی جنگ میں تنزلی کی بنیادی وجوہات سرمایہ دارانہ حکومت کے وہی معاشی اور سماجی تضادات ہیں جن کا نتیجہ پچھلی صدی میں جنگ اور فاشزم کی صورت میں نکلا۔ یہ باہم مربوط تضادات ہیں سب سے پہلے، سرمایہ دارانہ قومی ریاستی نظام کے ساتھ عالمی معیشت کی عدم مطابقت؛ اور دوسرا، پیداواری قوتوں کی سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کا سماجی طور پر تباہ کن کردار، جو پیسے کے دیوانے اشرافیہ کے زیر کنٹرول ہے اور سماجی پیداوار جس میں بین الاقوامی محنت کش طبقے پر مشتمل اربوں لوگوں کی محنت شامل ہے۔

اگر تباہی کو ٹالنا ہے تو فیصلہ کن کام ایک عالمی جنگ مخالف تحریک کی تعمیر کرنا ہے جو محنت کش طبقے کو اس کے جمہوری اور سماجی حقوق پر بڑھتے ہوئے حملے کے خلاف جنگ اور اسے پیدا کرنے والے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو متحد کرنے کے لیے متحد ہو۔

Loading