1۔ فورتھ انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی اور ورلڈ سوشلسٹ ویب سائیٹ نے دو ٹوک اندازمیں واشنگٹن اور اسکے نیٹواتحادیوں کی جانب سے یوکرین پر روسی حملے کے جھوٹے دعوؤں کے بہانے روس کے خلاف جنگ بھڑ کانے کی غیر معقول کوشش کی مخالفت کی ہے۔بائیڈن حکومت کی من گھڑت اور بالکل لغو کہانی کہ ”روس آرہا ہے “ قابل اعتماد حقائق کے برخلاف اور سیاسی منطق سے عاری ہے۔
2۔ سر پر منڈلاتی جنگ کے دعوے صرف امریکہ اور نیٹو کر رہے ہیں۔ روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا جس سے ایسا کوئی اشارہ ملے کہ اسکا ایسا کوئی ارادہ بھی ہے۔ یوکرین کے صدر ویلادیمیر زیلنسکی نے بھی اس بات سے انکار کیا ہے کہ جنگ سر پر کھڑی ہے اور روس اور نیٹو سے با ربار مطالبہ کیا ہے کہ وہ خوف نہ پھیلائیں۔
3۔ امریکی حکومت کا دماغ کو سن کر دینے والا پروپیگنڈہ وہ بے ہمت میڈیا کر رہا ہے جس کے خالی الذہن باتونی ترجمان بغیر کوئی سوال پوچھے اُس سکرپٹ کو بطور مطلق سچائی پیش کر دیتے ہیں جو ان کیلئے امریکی فوج اور ایجنسیاں تیا ر کرتی ہیں۔ وسیع تر پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے کا جھوٹ جو 2003 میں عراق پر حملے کے وقت پھیلایا گیا تھا کو بھلا دیا گیا ہے۔ کوئی بھی اہم تنقیدی سوال یا کسی بھی جنگ مخالف آواز کو ماس میڈیا پر نشرنہیں کیا جاتا۔محض الزامات کو ہی ثبوت کے طور پر پیش کر دیا جاتا ہے۔ جیساکہ بائیڈن حکومت کے ایک ترجمان نے حالیہ پریس بریفنگ میں اعلان کیا کہ کسی حکومتی بیان کیلئے کسی تصدیقی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بیان خود ہی کافی ثبوت ہے کیونکہ اسے خود حکومت نے جاری کیا ہے۔
4۔سی آئی اے کی بنائی گئی داستان کے مطابق، امن پسند امریکہ اور نیٹو تو محض یوکرین پر روسی حملے کے سدباب کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ بڑ ھتی ہوئی چپقلش امریکہ اور نیٹو کی کئی ما ہ سے جاری بھر پور تیاریوں کا نتیجہ ہے۔ پچھلے آٹھ ماہ میں، امریکہ نے اپنے دس ہزار فوجی یونان کی اپنی الیگزنڈرو پولس بیس پر تعینات کئے ہیں۔ اور بالکن اور بلیک سی کے علاقوں میں جنگ کی تیاری کیلئے ڈفنڈر یورپ کے نام سے فوجی مشقوں کا بھی انعقاد کیا، او ر سی بریزکے نام سے بلیک سی میں اب تک کی سب سے بڑی بحری مشق کی۔
5۔ امریکہ اور نیٹو کی تمام جنگوں کی طرح، یو کرین کے تنازعے پر بھی ایک منافقانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں بھی، روس کی جانب سے کریمیا کا الحاق اور اسکا مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند قوتوں کی معاونت کویوکرین کی خودمختاری کی واضح خلاف ورزی کے طور ہر پیش کیا جاتا ہے، اگرچہ یہ دونوں باتیں 2014 میں امریکہ اور جرمنی کی حمایت سے یوکرین میں کرائی گئی بغاوت اور حکومتی تبدیلی کا نتیجہ ہیں۔
6۔ امریکہ اور نیٹو ریاستی سرحدوں کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ لیکن اس اصول سے انکی مبینہ وابستگی پچھلے تیس سال میں انکی جانب سے مختلف ممالک کی سرحدوں کی بار بار خلاف ورزی اور ردوبدل کے بالکل برعکس ہے۔ امریکہ اور نیٹو نے یوگو سلاویہ میں تو حق خود ارادیت کا کوئی احترام نہیں کیا، جسے 1991 میں روس کی تحلیل کے بعدتباہ کر دیا گیاتھا۔ امریکہ اور جرمنی کے کروایشیا کی آزادی کو تسلیم کرنے نے اس نسلی جنگ کی راہ ہموار کردی جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد مارے گئے۔ 1999 میں نیٹو نے امریکی قیادت میں کوسووکی علیحدگی کی حمایت میں سربیا پر لگاتار 78 دنوں تک مسلسل بمباری کی، اور منشیات فروشوں پر مشتمل ایک حکومت کے قبضے میں جسے آزاد تسلیم کیا گیا۔
7۔ امریکہ نے اکتوبر 2001 میں افغانستان پر حملہ کیا اوراسکی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اور پھر مارچ 2003 میں عراق پر حملے اور اسکی حکومت کے خاتمے کی صورت میں بین الاقوامی قانون کی مزید کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔ عراق پر حملہ اور اسکی حکومت کا تختہ اُلٹنا۔عراق پر خونریزامریکی قبضے کے دوران انتونی بلنکن جو اب سیکرٹری ٓف سٹیٹ ہیں نے ملک کی سہ فریقی تقسیم کی تجویز پیش کی۔ 2011 میں لیبیا پر امریکہ اور نیٹو کے حملے کی بھی اسی طرح منصوبہ بندی کی گئی، جس کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ ہوا اور صدر کو قتل کردیا گیا۔۔۔۔ایک گھناؤنا جُرم جو اس وقت کی سیکرٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن کیلئے ہنسی مذاق کا ایک موقع ثابت ہوا۔اس مداخلت کے بعدشام پر بمباری کی گئی، جو ابھی تک جاری ہے۔
8۔واشنگٹن کی یوکرینی جمہوریت کیلئے تشویش اتنی ہی منافقانہ اور پُر فریب ہے جتنی اسکی یوکرینی حق خود ارادیت سے وابستگی۔ کیف میں قائم حکومت، جو ایک منتخب حکومت کے امریکہ کے ہاتھوں خاتمے کی مرہون منت ہے، مالیاتی اشرفیہ کے چوروں کے ایک ایسے ٹولے کی نمائندہ ہے جو یوکرینی مزدوروں کے حقوق غصب کررہا ہے۔ مختلف سماجی قؤتوں بشمول مختلف نیم فوجی تنظیموں اور انتہائی دائیں بازوں کی جماعتوں جن پرزیلنسکی کا انحصار ہے ان سب سے فاشزم کی جانی پہچانی بدبو آتی ہے۔
9۔واشنگٹن کو جنگ کی بہت جلدی ہے۔ایسے لگتاہے وہ ایک ایسے ٹائم ٹیبل پر عمل کر رہا ہے جس میں نہ تو نتائج کا جائیزہ لینے کی کوئی گنجائش ہے اور نہ بد ترین انجام کی بابت گفتگو کرنے کی۔ بائیڈن نے 10 فروری کو پریس کو بتایا کہ اگر امریکن اور روسی ایک دوسرے پر گولہ باری شروع کر دیں تو یہ ایک عالمی جنگ ہوگی۔تاہم جنگ کو روکنے یا ایسی کسی تباہی سے بچنے کے بجائے، امریکہ نے اپنے الزامات اور اشتعال انگیزیوں میں یہ کہہ کر اضافہ کیا کہ اسے تو 16 فرورری کی وہ تاریخ بھی معلوم ہے جب روس حملہ کریگا۔
10۔امریکہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر تباہی کے راستے پر گامزن ہے۔امریکہ اور اسکے نیٹو اتحادیوں کی دیوانگی کی ایک معر و ضی منطق بھی ہے جس کے دو بنیادی عوامل ہیں۔
11۔اول، 1991 میں روس کی تحلیل کی بعدسے امریکہ سامراجی توسیع پسندی اورلوٹ مار کے مواقع کی بھرپور تلاش میں ہے۔ 1992 میں بنائے گئے پینٹاگان اسٹریٹجک پلان میں اعلان کیا گیا کہ امریکہ اپنی عالمی اجارہ داری کے سامنے کسی نئے مدمقابل کو اُبھرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ پچھلے تین عشروں سے، بالکن، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور سینٹرل ایشیا میں کئی ملکوں اور تہذیبوں کو نیست ونابود کرتے ہوئے واشنگٹن اپنے ان مقاصد کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہے۔ امریکہ کی معاشی حیثیت میں جتنازوال آیا ہے، اتنا ہی دنیا بھر میں ا سکے جنگی مقاصد اور نشانوں میں اضافہ ہواہے۔اسکی نگاہیں اب روس اور چائینہ پر ہیں۔
12۔ اپنے 18 فروری 2016 کی ایک بیان بعنوان ”سوشلزم کی جنگ کے خلاف جدوجہد“ میں فورتھ انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی نے امریکی سامراج اور اسکے نیٹو اتحادیوں کا ایک جامع تجزیہ پیش کیا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ جنگ کی اس خواہش کی بنیاد سرمایہ داری کے گہرے تضادات ہیں: (1) جیساکہ عالمی سطح پر تمام ممالک کی معیشت مربوط طور پر ایک دوسرے کے ساتھ جڑی اور ایک دوسرے پر منحصر ہے اسکے ساتھ ساتھ قومی ریاستوں کے اپنے مفادات اور باہم اختلافات اور تضادات بھی ہیں؛ اور (2) اگرچہ عالمی پیداوارکے سماجی کردار مزدوروں کی مرہون محنت ہے لیکن ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے ماتحتدی کے ذریعے سرمایہ دار حکمران طبقے اسے نجی منافع میں بدل دیتا ہے۔
13۔ان بنیادی تضادات کی وضاحت آئی سی ایف آئی نے اسطرح کی:
جنگ کی اس خواہش کی بنیادی وجہ امریکہ کا اپنی عالمی حیثیت کو برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔ 1991 میں روس کی تحلیل کو عالمی سطح پر امریکہ کا بلا مقابلہ تسلط قائم کرنے کا ایک نادر موقع سمجھا گیا۔اور سامراجی پروپیگنڈے نے اس واقعہ کو ”تاریخ کا خاتمہ“ قرار دیتے ہوئے اسکا بہت چرچا کیا، اسے ایک ایسا ”یک قطبی“ موقع قرار دیاگیا جب امریکہ بغیر کسی مدمقابل کے وال اسٹریٹ کے مفادات میں ایک ”نیا ورلڈ آرڈر“ جاری کر سکتا تھا۔سویت یونین زمین کے ایک بڑے حصے پر پھیلا ہوا تھا،یورپ کے مشرقی کناروں سے لیکر بحر الکاہل تک۔اس طرح یوریشیا کے وسیع تر علاقے جو ایک کمزور روس کے ماتحت تھے اور نوآزاد وسط ایشیائی ریاستیں سب کارپوریٹ استحصال اور لوٹ مار کے کھیل کا حصہ بنا دیئے گئے۔چین میں سرمایہ داری کی اسٹالنسٹ بحالی، اور1989 میں اسکا مزدوروں کی مزاحمت کو پولیس ریاست کے طرز پر بذور قوت دبانے، ٹرانس نیشنل کمپنیوں او ر بیرونی سرمائے کی خاطر ”فری ٹریڈ زونز“ کے قیام نے سستی لیبر کی وافرفراہمی کو ممکن بنایا۔
14۔ سر پر منڈلاتے روسی حملے کے دعوے اور امریکی افواج کی اس علاقے میں تعیناتی اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ کارپور یٹ فائنینشل ایلیٹس کے کچھ حلقے اور خفیہ ادارے اس بات کا فیصلہ کر چکے ہیں کہ روس کے ساتھ محاذ آرائی میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ 2017 اور 2020 کے درمیان، ڈیموکریٹ پارٹی کی ٹرمپ کے خلاف شکایت اسکا آئین پر حملہ نہیں اور نہ آمریت کی تیاری ہے، بلکہ بھرپور قوت سے روس کا مقابلہ نہ کرنا ہے۔ دسمبر 2019 اور فروری2020 کے درمیان، ٹرمپ کے مواخذے کی پہلی کاروائی پر ان الزامات کا غلبہ رہا کہ اس نے یوکرین کی فوجی امداد روک دی تھی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی ٹرمپ کی مذمت اسکے مستقبل میں فاشسٹ ڈکٹیٹر بننے پر نہ تھی بلکہ اسکے پیوٹن کی کٹھ پتلی بننے پر تھی۔
15۔اب جب بائیڈن انتظامیہ برسر اقتدار ہے، وہ ضائع ہوئے وقت کی تلافی کی کوشش میں ہے۔ امریکہ اور نیٹو کا طریقہ کار چالاک،مکاراور جتناجارحانہ اتنی ہی واضح ہے۔ یوکرین کو روس کو جنگ میں پھنسانے کیلئے چارے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بائیڈن کا روس پر متواتر فالس فلیگ (اپنی جرائم اور جنگ اکسانے کے حقائق پر پردہ ڈالتے ہوئے دوسروں کو مرید الزام ٹہرانا) کا الزام اس جیب کترے کی کہانی یاد دلاتا ہے جو چور چور کی آواز لگا کر لوگوں کی توجہ ان کی جیبوں سے ہٹاتا تھا۔ اگر کوئی ملک فالس فلیگ اپریشن کی منصوبہ بندی کا ماہر ہے۔تو وہ امریکہ ہے۔
16۔یوکرین میں کوئی بھی حادثہ، خواہ کتنی ہی مشتبۃ نوعیت کا ہو، نیٹو افوج کو حرکت میں لانے کا سبب ہوگا اور ایک جائیز یا نا جائیز جنگ کے حالات پیدا کر ے گا۔ نارڈ اسٹریم ٹو پائپ لائن پراجیکٹ، جس کے ذریعے روس نے جرمنی کو گیس فراہم کرناتھی، کو ختم کر دیا جائے گا۔ نیٹو کے گھیرے میں، روس سے مسلسل مطالبے کئے جائینگے، جن میں پہلا مطالبہ کریمیا کی یوکرین کو واپسی ہوگا۔ بیلا روس میں روس کے اثر کو ختم کیا جائیگا۔روس میں علیحدگی پسند تحریک، چیچنیا سے سائیبریا تک، کو کھلم کھلا سامراجی معاونت فراہم کی جائیگی۔مقصد ماسکو میں حکومت کو بدلنا اور روس کے ٹکڑے کرنا ہے۔
17۔بائیڈن انتظامیہ کایوکرین کا نیٹو ممبر بننے کے حق پر اصرار اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد روس کو ایک طاقت سے محروم ملک بنانا ہے۔ زبنیف برزنسکی مرحوم، وہ سامراجی جس کا کام جنگ بھڑکانے کی تدابیر کرنا تھا، نے اپنی کتاب ”گرینڈ چیس بورڈ“ میں لکھا، کہ یو کرین روس کیلئے سیاسی اور جیو پو لیٹیکل اعتبار سے مرکزی حثیت کا حامل ہے۔ جس پر اسکی جنوبی سرحدوں کی حفاظت اور گرم پانیوں تک رسائی کا انحصار ہے۔ یوکرین، بلیک سی،اور کیسپئن کا ساراعلاقہ جیو اسٹریٹجک اعتبا ر سے انتہائی اہم ہے اور واشنگٹن کے عالمی تسلط کا مرکز و محور ہے۔اسی خطے سے روس بحیرۂ روم تک رسائی حاصل کرتا ہے اور چائینہ اپنے بیلٹ اور روڈ منصوبے کے ذریعے یورپ تک پہنچتا ہے۔واشنگٹن کی جنگ کا مقصد روس کو تباہ کرنا ہے جو کیسپئن اور بلیک سی اور بالآخر سارے یوریشیا کے علاقے میں اسکے قبضے کی راہ میں رکاوٹ ہے، تاکہ وسائل سے مالامال اس خطے کو سامراجی قبضے میں لایا جائے۔ چین کے ساتھ جنگ کی تیاری کیلئے یہ ایک ضروری عمل ہے۔
18۔دوئم،اندرونی بحرانوں کی بدولت جنگ کی کوششوں میں یہ شدت لائی گئی ہے۔ افغانستان میں ناکامی کے فوری بعدجنگ کی مہم کی یہ تیزی بڑے بڑے سماجی، سیاسی اور معاشی بحرانوں سے جُڑی ہوئی ہے۔
19۔ انٹرنیشنل کمیٹی جنوری 2020 میں کووڈ کے آغاذ سے ہی اس بات کی نشان دہی کر رہی ہے کہ اس وبا ئی مرض کے اکیسویں صدی پر ایسے ہی اثرات ہونگے جیساکہ پہلی عالمی جنگ اور دوئم کے بیسویں صدی پر تھے۔یہ وبا وہ نقطۂ آغاذ جس سے سرمایہ داری کے شدید تضادات ایک زور دار دھماکے سے پھٹ جائینگے۔
20۔اس وبا کی وجہ سے عالمی سطح پر جانوں کا نقصان بہت غیر معمولی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ساٹھ لاکھ افراد اب تک ہلاک ہوچکے ہیں۔ اضافی اموات کو شامل کرنے سے جانوں کا یہ نقصان دو کروڑ بھی ہوسکتا ہے۔ امریکہ میں، جو امیر ترین اور طاقتور ترین ملک ہے، اموات کی تعداد دس لاکھ کو پہنچ رہی ہے۔
21۔یہ تباہ کن قیمت ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جن میں سرمایہ دار حکمران طبقات کی دولت میں اضافہ اور اسکے تحفظ کو انسانی جانوں کے بچانے پر فوقیت دی جاتی ہے۔اب جبکہ ہزاروں افراد ہر ہفتے اس بیماری کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں،کووڈ۔19 پرقابوپانے کی کوششوں کو بالکل ہی ترک کر دیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں حکومتیں،واشنگٹن کی قیادت میں،اب روزانہ کی ہزاروں اموات کو نارمل سمجھتی ہیں اور بیماری اور ہلاکتوں کی تمام رپرٹنگ کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔
22۔اس بیماری نے تمام سرمایہ دار ممالک کے اندرونی معاشی، سیاسی اور سماجی بحرانوں کوبہت سنگین بنا دیا ہے۔درحقیقت، زیادہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک بلخصوص امریکہ میں اس بیماری کا اور بھی بھیانک چہرہ سامنے آیا ہے۔
23۔ امریکہ بڑی تیزی سے مکمل معاشی،سماجی اور سیاسی انہدام کے قریب پہنچ رہاہے۔مہنگائی آسمانوں پر ہے، اور امریکہ کا قرضہ،جس کابنیادی سبب بینکوں کو اوروال اسٹریٹ کو مسلسل پیسوں کی فراہمی ہے، ہوشربا 30 ٹرئیلین ہوچکا ہے۔اور ابھی ایک سال قبل ہی جنوری 6 کو امریکہ اپنی آئینی حکومت کے خاتمے کی کوشش والی بغاوت سے بال بال بچا ہے۔
24۔پچھلے ماہ ایک پریس کانفرنس میں بائیڈن نے کہا کہ پتہ نہیں امریکی جمہوریت یہ دس سال گزار پائے گی یا نہیں۔سماجی نا انصافی کی یہ سطح کسی اور ملک میں نہیں، اور نہ ہی ایسا حکمران طبقہ جو عوام کی ضروریات سے اسقدر لاتعلق ہو۔ امریکہ ایک ایسا دھماکہ خیز موادبن چکا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔جنگ مصنوعی اتحاد کا ایک ذریعہ اور بحرانوں کا رُخ باہر کی جانب موڑنے کا عارضی سبب ہے۔
25۔جنگ کی وجوہات کی مطالعے میں، کئی سنجیدہ تاریخ دانوں نے اندرونی وجوہات کو فوقیت دی ہے۔معروف امریکی تاریخ دان، آرنو مئیر،نے نصف صدی قبل ”رد انقلاب کے محرقات“ میں لکھا تھا کہ کشیدہ اور غیر مستحکم اندرونی حالات حکمران طبقات کو بہت ضدی بنا دیتے ہیں اور وہ ایسے اقدامات کی جانب مائل ہوتے ہیں جو اگرچہ بہت زیادہ خطرناک نہ سہی لیکن غیر معمولی شدت کے حامل ضرور ہوتے ہیں۔حالات کے ہاتھوں یر غمال کمزور حکومتیں اورسیاسی طبقات کسی بیرونی محاذآرائی اور جنگ کی جانب زیادہ مائل ہوتے ہیں بجائے اسکے خلاف ہونے کے۔ اپنے اندازے اور اپنے خیال دونوں سے وہ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ایک شکستہ حال مملکت کے اراکین اور سارہ معاشرہ سب ایک دفعہ پھر اکٹھے ہو جائینگے جب انہیں ایک مشترکہ بیرونی خطرے اور دشمن کا سامناہوگا۔ایسی حکومتیں بیرونی محازآرائی یا جنگ کو اندرونی ہم آہنگی کا زریعہ سمجھتی ہیں، جو انکے خیال میں سر پر منڈلاتی بغاوت، انقلاب، خانہ جنگی یا علیحدگی پسندی کے خلاف ایک تریاق ہے۔ایک بڑی سفارتی کامیابی یا عسکری فتح کا حتمی مقصد اندرونی طور پر کمزور حکومتوں اور شکستہ اشرافیہ کی بحالی بلکہ اس کی طاقت میں اضافہ کرناہی ہے۔
26۔یورپین بورژوازی، جو دو عالمی جنگوں کی تباہی سے بمشکل ہی بچ پائی تھی،اب کافی محتاط ہوچکی ہے۔پھر بھی وہ واشنگٹن کی جنگی مہم جوئی کی ہمنوا ہے، اس حقیقت کے باوجود کہ یوکرین کی جنگ اسکے مفادات کیلئے تباہ کن ہوسکتی ہے، کیونکہ اسکا بہت زیادہ انحصار روسی گیس اوراسکے دیگر وسائل پر ہے۔ لیکن شدید اندرونی بحرانوں کا سامنا ا نہیں تباہی کے اس راستے پر دھکیلتا چلا جاتا ہے۔اور انہیں بخوبی علم ہے کہ امریکی مفادات سے براہ راست ٹکراؤانکے لئے تباہ کن ہوگا۔ 2003 میں، جرمنی اور فرانس نے سرکاری طور پر عراق پر امریکی حملے کی حمایت میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ واشنگٹن نے کھلم کھلا اپنے دیرینہ اتحادیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اوردھمکی دی کہ وہ یورپ میں اپنے تعلقات کی نوعیت کو بدلتے ہوئے مشرقی یورپ کے حال ہی میں نیٹو ممبر بننے والے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرے گابجائے وسطی ممالک کے پرانے یورپ کے۔ یورپی بورژوازی کو یہ بھی ڈر ہے کہ امریکی کے خلاف مزاحمت کرنے سے کہیں وہ روس کی ممکنہ ترتیب نو کے نتیجے میں ملنے والے فوائد سے محروم نہ ہو جائے۔لہٰذا اچھا بچہ بنتے ہوئے جنگ کی اس مہم جوئی میں وہ شامل ہے۔
27۔لیکن واشنگٹن یا یورپی دارالحکومتوں میں ماہرین کی جو بھی رائے ہو، جنگ سے انکا کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا۔ایسی تباہی اور ہلاکت کی شروعات کرنے والے مجر م دوسروں کیلئے گڑھا کھودنے اور خود اسکا شکار ہونے کی شرمندگی سے دوچار ہونگے۔
28۔یوکرین میں روس کے ساتھ جنگ چاہے اسکا آغاز اور ابتدائی مراحل کچھ بھی ہو ں محدود نہ رہے گی۔ وہ بہت زیادہ پھیل جائے گی۔خطے کا ہر ملک اس لڑائی کا شکار ہو جائیگا۔بلیک سی جس کے کناروں پر سات ممالک آباد ہیں وہ ٹراسکا کیشیا، کیسپئن سمندرکے سارے علاقے، اور سینٹر ل ایشیا کے خطوں کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے ایک بڑھتی ہوئی جنگ کے آلاؤ میں بدل جائیگا۔
29۔ چین کے مفادات کو براہ راست زک پہنچے گی اور وہ اس لڑائی میں شامل ہو جائیگا۔ پھر یہ لڑائی تائیوان تک پھیل جائیگی۔ایران اور اسرائیل کو بھی جنگ میں کھینچ لیا جائیگا۔اور پھر جاپان اور آسٹریلیا آ شامل ہونگے۔ پھر ایک ایسا مرحلہ آئیگا جب نیوکلیئراسلحے کا استعمال ہی جنگ کو ختم کرنے کا زریعہ قرار پائے گا۔اور اس جنگ کے ہر مرحلے پر امریکہ کا کردار مرکزی ہوگا، لاکھوں کروڑوں اموات ہونگی اور وسیع پیمانے پر سماجی انتشاروخلفشار۔
30۔یو ایس ایس آر کی تحلیل کو صرف تیس سال ہوئے ہیں۔ 1992 میں، ماسکو اور کیف میں اسٹالنسٹ بیوروکریٹ یہ دعویٰ کرتے تھے کی سرمایہ داری کی بحالی سے خوشحالی کے ایک فقید المثال دور کا آغازہوگا۔ دونوں روس اور یوکرین، مارکسزم کو ترک کرنے کے بعد، بہت زیادہ خوشحال ہو نگے کیونکہ امن پسند اور خوش باش سرمایہ دار ممالک کی انجمن میں انکو خوش آمدید کہا جائیگا۔
31۔ یہ غیر تاریخی خام خیالی جو1991 سے قبل کے ”ایک ملک میں سوشلزم“ اورسامراج کے ساتھ ”پُر امن بقائے باہمی“ کی اسٹالنسٹ پھکی پر مبنی تھی اب ریزہ ریزہ ہوچکی ہے۔ مارکسزم اور اکتوبر 1917 کے انقلاب سے جڑی ہر شے کی شدید مخالف روسی حکومت کو اب سامراجی محکومی جیسی تلخ حقیقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
32۔پیوٹن کی حکومت،جو دراصل بد عنوان مالیاتی سرمایہ داروں کی نمائندہ ہے،کے پاس اس خطرے کا کوئی پائیدار اور دور رس حل موجود نہیں۔عالمی سرمایہ داری کے وہ ادارے جن پر امریکہ اور بڑے سامراجی ممالک کا قبضہ ہے ان میں روس کی پرامن شمولیت اب تک تو ایک فریب ہی ثابت ہوئی ہے۔عالمی مالیاتی نظام میں روسی معیشت کی کوئی بڑی حیثیت نہیں لیکن امریکہ کی جانب سے پھر بھی وہ مسلسل پابندیوں کی زد میں ہے۔
33۔ رُجعتی قوم پرستی کی نعرہ بازی سرحدوں پر آباد عوام کیلئے کچھ خاص پر کشش نہیں اور یہ روسی تنہائی میں اضافے کا باعث ہے۔ اور پیوٹن کے نیو کلیئر تلوار لہرانے سے بھی ایک تباہ کن عالمی جنگ کے خطرناک امکان کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ہوگا۔ وہ کووڈ سے تباہ حال ملک پر تشویشناک انداز سے حکمرانی کر رہا ہے،وبا کے اثرات نے سوویت عہد کے بعد کے خستہ حال سماج کے تضادات کو بہت سنگین بنا دیا ہے۔ پیوٹن باہم دست وگریباں سرمایہ دار اشرافیہ کے مابین توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہاہے، ایک دھڑا اپنی لوٹ مار کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ اور یورپی سامراج کی بالا دستی قبول کرنے کو تیا ر ہے جبکہ کہ دوسرے کو خدشہ ہے کہ جھکنے کی صورت میں اسکے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ دوسرے دھڑے میں انتہائی دائیں بازو کے وہ قوم پرست عناصر شامل ہیں جن کے قومی دفاع کے تصور میں خود کش نیوکلیئر ہتھیاروں کا استعمال شامل ہے۔
34۔انٹرنیشنل کمیٹی کی سامراجی جنگ کی مخالفت کسی قسم کی قوم پرستی کی حمایت کی بنیاد پر نہیں ہے، بلکہ تمام ملکوں کے مزدوروں کو سرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلزم کے قیام پر متحد کرنے کی بنیاد پر ہے۔ موجودہ صورتحال میں اس بنیادی اصول کا اطلاق اور بھی شدت سے ہوتا ہے۔
35۔یوکرینی اور روسی مزدور طبقے کی ایک ہی تاریخ ہے۔انہیں اس برادر کش جنگ کی کوئی خواہش نہیں۔انقلابی تحریک نے یوکرین میں سوشلزم کی جنگ لڑنے والے کئی عظیم رہنما پیدا کئے، بشمول لیؤن ٹراٹسکی۔ یوکرین اور روس کے مزدوروں نے کامریڈوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ ملکر زار شاہی کے خاتمے اور اکتوبر انقلاب کی فتح کیلئے جدوجہد کی۔ روس اور یوکرین دونوں کے مزدور اسٹالنسٹ حکومت کے جرائم کا شکار ہوئے،اور دونوں ہی سرمایہ داری کی بحالی کے نتائج بھگت چکے ہیں۔ دونوں ملکوں میں موجود فسطائی قوم پرست نہ وہاں کے مزدورطبقے کے مفادات کے نمائندہ ہیں اور نہ ترجمان۔
36۔روسی اور یوکرینی مزدوروں کی راہ نجات ایک عالمی تناظر کی حامل ہوگی۔اس بات کی نشان دہی ضروری ہے کہ پیو ٹن کی مخالفت کے معنٰی سامراج کی حمایت نہیں۔ جعلی لیفٹ کی جانب سے روسی اور چینی ”سامراجیت“ کی مذمت کا بیسویں اور اکیسویں صدی کی تاریخی تبدیلیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔بلکہ وہ صرف پیٹی بورژوا قؤتوں کی واشنگٹن کی ہمنوائی کو ظاہر کرتے ہیں۔روسی قوم پرستی اختیار کئے بغیر سامراج کی مخالفت ضروری ہے، اوراسی طرح سامراج کی حمایت کئے بغیر روسی قوم پرستی کی مخالفت بھی۔
37۔موجودہ تناؤ کا جو بھی نتیجہ ہو، یہ طے ہے کہ اس بحران کا کوئی پُرامن حل نہیں۔ 1914 میں پہلی عالمی جنگ اور 1939 میں دوسری عالمی جنگ سے پہلے کے عرصے میں ”جنگ کے خوف“ کے بادل فضا میں منڈلا رہے تھے۔لیکن ایک بحران کے حل کے بعد دوسرا بحران پیداہوجاتا، اور بالآخر جنگ چھڑ گئی۔
38۔موجودہ بحران ایک سنجیدہ انتباہ ہے۔سامراج تباہی کی جانب تیزی سے لڑھک رہا ہے۔ یوکرین میں تیار ہوتی اس تباہی کو روکنے کیلئے جس قؤت کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے وہ بین الاقوامی مزدور طبقہ ہے۔ جنگ کے خلاف جدوجہد استحصال اورسرمایہ دار حکومتوں کی ہرڈ امیونٹی کی پالیسیوں کے خلاف لڑائی سے براہ راست منسلک ہے۔سامراج اور مالیاتی سرمایہ کو اپنی لوٹ مار اور نفع کے تحفظ کیلئے خواہ کتنی ہی انسانی جانوں کی قربانی دینی پڑے وہ اس سے دریغ نہیں کریگا۔کورونا کی عالمی وبا سے پہلے ہی لاکھوں اموات ہو چکی ہیں اب ان میں جنگ کی وجہ سے مزید لاکھوں اموات کا اضافہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ امر اشد ضروری ہے کہ مزدو راپنی ایک آزاداور خودمختار جنگ مخالف تحریک شروع کریں جو سوشلسٹ اور عالمی نقطۂ نظر کی حامل ہو۔
39۔ انٹر نیشنل کمیٹی نے اپنی 2016 کے بیان میں سامراج اور جنگ مخالف جو رہنما اصول وضع کئے تھے ان کی اہمیت آج کے بحران میں اور بھی نمایاں ہوجاتی ہے۔
- ۔جنگ کے خلاف جدوجہد مزدور طبقے پر مبنی ہو،جو معاشرے کی سب سے بڑی انقلابی قوت ہے، اورجو عوام کے تمام ترقی پسند عناصر کو اپنے ساتھ لیکر چلے۔
- ۔ جنگ مخالف یہ نئی تحریک سرمایہ داری کے خلاف ہو اور سوشلسٹ ہو، کیونکہ مالیاتی سرمائے کی آمریت کے خاتمے اور اس معاشی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کے بغیر جو عسکریت پسندی اور جنگ کی بنیادی وجوہات ہیں،کوئی بھی جنگ مخالف سنجیدہ کوشش ممکن نہیں ہے۔
- ۔ اس نئی جنگ مخالف تحریک کیلئے بے حد ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر اور بغیر کسی قسم کے ابہام کے نہ صرف آزادوخودمختار ہو بلکہ سرمایہ دار طبقے کی تمام سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف بھی ہو۔
- ۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ نئی جنگ مخالف تحریک عالمگیر ہو جو مزدور طبقے کی عظیم طاقت کوسامراج مخالف متحدہ عالمی جدوجہد میں متحرک کرے۔
40۔ہم مزدور طبقے اور نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں، اور اسکے ساتھ ساتھ متوسط طبقے میں موجود بااصول اور با ہمت افراد سے بھی،کہ وہ ان اصولوں کی بنیاد پر جنگ برپا کرنے کی کوششوں کے خلاف جدو جہد کریں۔
41۔فورتھ انٹرنیشنل کی انٹر نیشنل کمیٹی اور اسکے مختلف حصے،دنیا بھر میں موجود سیاسی رجحانات اور افرادکے ساتھ،جو جنگ مخالف ایک عالمی سطح کی ماس تحریک کے قیام کی فوری ضرورت کو تسلیم کرتے ہوں اس بیان میں پیش کئے گئے اصولوں کی بنیاد پر ایک برادرانہ بحث وتمحیص کو خوش آمدید کہتے ہیں۔